Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی گرفتاری کا ایک سال: ’زمان پارک کی تصویر بنانا ممنوع ہے‘

بندوقوں اور ڈنڈوں سے مسلح پولیس اہلکاروں نے موبائل فون اور دفتر کا کارڈ قبضے میں لے لیا (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی لاہور کے علاقے زمان پارک سے ان کی گرفتاری کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ خیال تھا کہ جب 5 اگست 2023 کو ان کی گرفتاری لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے ہوئی تھی تو اس کے بعد پولیس نے میڈیا کے نمائندوں کو خود بلا کر ان کے گھر کے کچھ حصے دکھائے تھے تو اب ایک سال بعد بھی شاید پولیس میڈیا والوں کے ساتھ  ایسا ہی اچھا ’برتاؤ‘ کرے گی۔
تاہم جب 5 اگست پیر کی صبح زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچا اور گھر کے ارد گرد ماحول کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے لگا تو مرکزی دروازے پر کھڑے درجنوں پولیس اہلکار الرٹ ہو گئے۔
بندوقوں اور ڈنڈوں سے مسلح پولیس اہلکاروں نے موبائل فون اور دفتر کا کارڈ قبضے میں لے لیا اور پوچھ گچھ شروع کر دی۔ جب ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے تو ایک افسر سے جواب دیا کہ ’یہاں کسی بھی قسم کی تصویر بنانا ممنوع ہے۔ آپ کے موبائل کی بھی جانچ ہو گی کہ آپ نے تصاویر بنائی ہیں یا نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ضلعی حکومت نے نے بندش عائد کر رکھی ہے یا پولیس نے اپنے طور پر؟ تو پولیس افسر نے جواب دیا کہ ’یہ سمجھیں کہ سب کی طرف سے ہی ہے۔ آپ پہلے یہ بتائیں کہ آپ نے گاڑی کس طرف کھڑی کی ہے کیونکہ یہاں گاڑی پارک کرنا بھی منع ہے۔ تصویریں بنانا تو دور کی بات ہے۔‘
ان کو بتایا کہ گاڑی زمان پارک کی پچھلی طرف گلی میں کھڑی ہے تو پولیس اہلکار کا رنگ زرد پڑ گیا انہوں نے تاسف سے کہا کہ ’پھر تو آپ نے اس سائیڈ سے ویڈیوز بنا کر بھیج دیں ہوں گی۔‘
تاہم موبائل پر انہیں کچھ نہ ملنے اور کافی دیر اعلی حکام سے رابطے کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ خاموشی سے یہاں سے چلیں جائیں۔
دو سو میٹر کی پیدل واک میں زمان پارک کا مرکزی دروازہ اور اس کے سامنے گرین بیلٹ کا جائزہ لینے سے یہ بات سمجھ آئی کہ اب یہاں صرف پرندے بسیرا کرتے ہیں۔
گھر کے مرکزی دروازے کو لوہے کی نیلی چادر سے ڈھانپ دیا گیا ہے، تاہم گھر کے گیٹ کی پیشانی پر عربی اور اردو زبان میں ایک بورڈ پر لکھا ہے ‘ہر تنگی کے بعد آسانی ہے۔‘
مرکزی دروازے کے سامنے گرین بیلٹ پر جہاں کئی مہینے تحریک انصاف کے کارکنان نے خیمے گاڑے تھے وہاں پر اب لمبی لمبی گھاس ہے اور جنگل کا ماحول ہے۔
اسی طرح گذشتہ برس ہی جب ضلعی انتظامیہ نے عمران خان کی رہائش گاہ سے تجاوزات ختم کیں تو گرین بیلٹ پر سیکنڑوں درخت بھی لگائے گئے تھے۔ بظاہر لگ رہا تھا کہ تمام کے تمام درخت ہی نمو پا رہے ہیں اور ہریالی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

پولیس ہلکار نے بتایا کہ ’یہ یوٹیوبرز کی وجہ سے اتنی سختی ہے۔ عام طور پر یہاں پر اتنی پولیس تعینات نہیں ہوتی (فوٹو: اردو نیوز)

مرکزی دروازے کے باہر نہر کی سڑک اور گھر جانے والے راستے پر بننے کو خود ساختہ مرشد چوک میں ایک گولا گنڈا بیچنے والا کھڑا تھا۔
پولیس والے جب اپنی پوری تسلی کر چکے تو کسی حد تک مانوس بھی ہو چکے تھے۔ ایک اہلکار نے بتایا کہ ’یہ یوٹیوبرز کی وجہ سے اتنی سختی ہے۔ عام طور پر یہاں پر اتنی پولیس تعینات نہیں ہوتی۔ لیکن ہمیں کہا گیا کہ یہاں ٹیوبر آئیں گے ان کو ویڈیوز نہیں بنانے دینی۔ ہم تو آرڈر کے پابند ہیں۔‘
تاہم جہاں پر میں نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، یہ گلی چوہدری اعتزاز احسن کے گھر کی طرف جاتی ہے، وہاں پولیس نہیں تھی یقیناً یہاں تصویر بنانا ممنوع نہیں تھا اور نہ ہی کوئی بورڈ لگا ہوا تھا اس لیے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے صحافتی ذمہ داری کے پیش نظر چند تصاویر بنا لیں۔

شیئر: