Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی قید کو ایک سال: وہ بڑے سیاسی رہنما جو جیل کاٹ چکے ہیں

60 کی دہائی میں پاکستان میں کسی سابق وزیراعظم کی پہلی گرفتاری عمل میں لائی گئی جب حسین شہید سہروردی کو گرفتار کیا گیا (فوٹو: نیو ایج)
آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان کا جیل میں ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ سیاسی رہنماوں کی قید و بند کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ اب تک پاکستان کے سات وزرائے اعظم سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے سربراہان، درجنوں وفاقی وزرا، سیاسی رہنما اور سینکڑوں کارکنان جیلیں کاٹ چکے ہیں۔
اس وقت بھی ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشری بیگم، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت تحریک انصاف کے کئی درجن رہنما اور کارکنان جیلوں میں موجود ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی جماعت کی حکومت جانے کے بعد اس حکومت کے سربراہ، وزرا اور کارکنان کو جیلوں میں ڈالا گیا ہے بلکہ پاکستان میں یہ ریت بہت پرانی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت پر تنقید کو ریاست مخالف بنا کر سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور قید کا سلسلہ تو قیام پاکستان کے اگلے سال ہی شروع ہو گیا تھا۔
1948 میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کو ریاست کے خلاف بیان دینے کے جرم میں گرفتار کر کے کوہاٹ جیل میں قید کیا گیا۔ 60 کی دہائی میں خان عبدالغفار خان کو دوبارہ گرفتار کرکے راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیا۔
1953 میں جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔
مولانا مودودی کو لاہور اور ملتان میں قید میں رکھا گیا اور انھیں پھانسی کی سزا سنائی گئی، تاہم اس پر عمل در آمد نہیں کیا جا سکا تھا۔ مولانا مودودی کے علاوہ مولانا عبدالستار نیازی کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا تھا۔
60 ہی کی دہائی میں پاکستان میں کسی سابق وزیراعظم کی پہلی گرفتاری عمل میں لائی گئی جب حسین شہید سہروردی کو گرفتار کیا گیا۔ حسین شہید سہروردی پاکستان کے پانچویں وزیراعظم (ستمبر 1956 تا اکتوبر 1957) تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کی حکومت پر قبضے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔ الیکٹیو باڈیز ڈس کوالیفیکیشن آرڈر (ایبڈو) کے ذریعے ان کی سیاست پر پابندی عائد کر دی گئی اور بعد میں جولائی 1960 میں ایبڈو کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔
جنوری 1962 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور من گھڑت الزامات پر بغیر مقدمہ چلائے کراچی کی سینٹرل جیل میں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔
اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو ایسی جماعتیں ہیں جن کی قیادت کے پورے پورے خاندان نے کئی کئی سال جیلوں میں گزارے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی دے دی گئی تھی۔

عمران خان پر ملک بھر میں 200 کے قریب مقدمات درج ہیں (فوٹو اے ایف پی)

سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور ان کو سزائیں سنانے سے ملک کو کیا فائدہ ہوا اس کے بارے میں تو کبھی کچھ سامنے نہیں آ سکا البتہ سیاسی قیادت کو قید کرنے سے ملک میں سیاسی ہم آہنگی، سیاسی مکالمے اور ملکی امور پر وسیع تر مشاورت کے دروازے مسلسل بند ہوتے گئے۔ اس کے باوجود یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور سابق حکومت کی قیادت اور کارکنان مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جیلوں میں موجود ہے۔
تحریک انصاف کے جیل کاٹنے والے رہنما کون ہیں؟
تحریک انصاف اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد مسلسل مقدمات کی زد میں ہے لیکن اس میں اضافہ سابق وزیراعظم عمران خان کی نو مئی 2023 کو گرفتاری کے بعد ہوا۔
عمران خان
سابق وزیراعظم عمران خان کو پہلے نو مئی کو گرفتار کیا گیا لیکن 11 مئی کو سپریم کورٹ کی مداخلت پر انھیں رہا کر دیا گیا، تاہم اگست 2023 میں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے انھیں تین سال کی سزا سنا دی اور انھیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ ابھی تک جیل میں موجود ہیں۔
اس دوران انھیں سائفر کیس اور عدت کے دوران نکاح کیس میں بھی سزائیں سنائی گئیں۔ عدت نکاح کیس میں ان کی اہلیہ کو بھی دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
اگرچہ ان تینوں مقدمات میں عدالتوں کی جانب سے ان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر انھیں بری کر دیا گیا ہے، تاہم انھیں دیگر مقدمات میں تحویل میں رکھا گیا ہے۔
واضح رہے کہ عمران خان پر ملک بھر میں 200 کے قریب مقدمات درج ہیں۔

بھٹو کو بالآخر موت کی سزا سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی (فوٹو اے ایف پی)

شاہ محمود قریشی
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی سائفر کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں انھیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ بھی کم و بیش ایک سال سے قید میں ہیں۔ سزا معطلی کے باوجود انھیں نو مئی سے متعلق مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
پرویز الٰہی
سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الٰہی کو جب لاہور سے حراست میں لیا گیا تو غالب امکان یہی تھا کہ وہ چند روز میں باہر آ کر پریس کانفرنس کر دیں گے۔ لیکن خلاف توقع پرویز الٰہی یکم جون 2023 کو پہلی گرفتاری سے لے کر مئی 2024 تک وہ مسلسل حراست میں رہے۔
گرفتار صوبائی رہنما کون کون ہیں؟  
ڈاکٹر یاسمین راشد سابق صوبائی وزیر ہیں۔ ان کی عمر 70 برس سے زائد ہے جبکہ وہ کینسر کی مریضہ ہیں۔ نو مئی کے بعد گرفتار ہوئیں اور اب تک جیل میں موجود ہیں۔
ان کے علاوہ میاں محمود الرشید، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، سینیٹر اعجاز چوہدری اور کئی دیگر رہنما نو مئی کے مقدمات میں گرفتار ہیں۔
عمران خان کے بھانجے حسان نیازی سمیت درجنوں فوجی عدالتوں میں مقدمات کے باعث ملٹری کی تحویل میں ہیں۔ خیال رہے کہ نو مئی کے مقدمات میں 22 رہنماؤں سمیت 260 سے زائد کارکنان کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے جیل جانے والے رہنما کون کون سے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، ان کی اہلیہ نصرت بھٹو، صاحبزادی بے نظیر بھٹو، داماد آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماوں اور کارکنوں نے ضیا الحق، نواز شریف، پرویز مشرف اور عمران خان کے دور حکومت میں جیل کاٹی ہے۔

1986 میں بے نظیر بھٹو کو کراچی میں یوم آزادی پر ریلی میں حکومت پر تنقید  کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

ذوالفقار علی بھٹو
ذوالفقار علی بھٹو اگست 1973 سے جولائی 1977 تک وزیراعظم رہے۔ ان پر قتل کا الزام لگا کر کر گرفتار کیا گیا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خواجہ محمد احمد صمدانی نے انھیں رہا کر دیا۔ جنہوں نے کہا کہ ان کی گرفتاری کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا، لیکن مارشل لا ریگولیشن 12 کے تحت تین دن بعد دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ امن و امان، یا مارشل لا کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے جرم کے تحت پولیس کا اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی کو بھی گرفتار کر سکتے تھے۔ اس قانون کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
بھٹو کو بالآخر موت کی سزا سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔
بے نظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو دو بار پاکستان کی وزیراعظم رہیں (دسمبر 1998 تا اگست 1990 اور اکتوبر 1993 تا نومبر 1996) ضیا الحق کی آمریت (1977-1988) میں بے نظیر نے بطور اپوزیشن لیڈر خدمات انجام دیں۔ وہ اگست 1985 میں اپنے بھائی کی آخری رسومات کے لیے پاکستان پہنچیں اور 90 دن تک گھر میں نظر بند رہیں۔
1986 میں بے نظیر بھٹو کو کراچی میں یوم آزادی پر ریلی میں حکومت پر تنقید  کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
مئی 1998 میں لاہور ہائی کورٹ کے احتساب بینچ نے بے نظیر بھٹو کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری، جبکہ جولائی 1998 میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بے نظیر بھٹو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
اپریل 1999 میں بے نظیر بھٹو کو سوئس کمپنی سے کک بیکس لینے کے الزام میں احتساب بینچ نے پانچ سال قید کی سزا سنائی اور عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا۔ فیصلے کے وقت وہ ملک میں نہیں تھیں اور بعد میں ایک اعلیٰ عدالت نے سزا کو کالعدم کر دیا تھا۔

آصف زرداری پہلی مرتبہ 1990 میں جیل گئے اور 1993 میں رہا ہوئے (فوٹو اے ایف پی)

آصف زرداری
آصف زرداری ملکی تاریخ میں دو مرتبہ صدر کا عہدہ سنبھالنے والی پہلی شخصیت ہیں اور 14 سال کا عرصہ جیل میں گزار کر طویل عرصہ تک جیل میں رہنے رہنے والے سیاسی قیدی کا اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے۔
آصف زرداری پہلی مرتبہ 1990 میں جیل گئے اور 1993 میں رہا ہوئے اور سیدھے ایوان صدر گئے جہاں انھوں نے نگراں کابینہ میں بطور وزیر حلف اٹھایا۔ 4 نومبر 1996 کو آصف علی زرداری کو پھر گرفتار کیا گیا۔
2004 میں تقریباً آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد وہ رہا ہوئے۔ زرداری کے مطابق اس دوران انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس قید کا اختتام اس وقت ہوا جب اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف ملک میں سیاسی مفاہمت کے لیے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کی منظوری دی۔
عمران خان کے دور حکومت میں انھیں جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں عدالت نے انھیں طبی بنیادوں پر ضمانت بعد از گرفتاری دے دی۔
 پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کے علاوہ موجودہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، سابق وفاقی وزیر سید خورشید شاہ، سید نوید قمر، سپیکر صوبائی اسمبلی آغا سراج درانی، صوبائی وزیر شرجیل میمن سمیت متعدد نے جیلیں کاٹ رکھی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے جیل کاٹنے والے رہنما کون کون ہیں؟
پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز نے جیلیں کاٹی ہیں جبکہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے درجنوں سابق وفاقی و صوبائی وزراء نے جیلیں کاٹ رکھیں ہیں۔

نواز شریف پر طیارہ اغوا کا کیس بنایا گیا جس کے تحت انھیں 25 سال کی سزا سنائی گئی (فوٹو اے ایف پی)

نواز شریف
سابق وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرکے نواز شریف کو حراست میں لیا تو ان پر طیارہ اغوا کا کیس بنایا گیا جس کے تحت انھیں 25 سال کی سزا سنائی گئی، تاہم نواز شریف 425 دن جیل میں گزارنے کے بعد ایک معاہدے کے تحت جدہ روانہ ہوگئے تھے۔
2017 میں بھی اقتدار سے نکالنے جانے کے بعد پانامہ کیس کے نتیجے میں بننے والے ایون فیلڈ ریفرنس میں 6 جولائی 2018 کواحتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کوان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر سمیت قید و جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف اور صاحبزادی مریم نواز69 اور کیپٹن صفدر 74 دن اڈیالہ جیل میں رہے تھے۔
19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے تینوں کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں العزیزیہ ریفرنس میں بھی احتساب عدالت نے نواز شریف کو سات سال کی سزا سنا کر دوبارہ جیل بھیج دیا جہاں 239 دن جیل میں گزارنے کے بعد وہ طبی بنیادوں پر چار ہفتے کی ضمانت ملنے پر لندن روانہ ہو گئے اور چار سال بعد لوٹے۔
شہباز شریف
شہباز شریف اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مسلسل دوسری متربہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے بحیثیت اپوزیشن لیڈر انھوں نے طویل عرصہ جیل میں گزارا۔
عمران خان کے دور حکومت میں شہباز شیف نے کم و بیش سات ماہ نیب تحویل اور جیل میں گزارے جبکہ مشرف دور میں بھی انھیں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا۔
مریم نواز
موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کے ہمراہ سزا سنائی گئی تھی۔ انھوں نے اپنے والد کے ساتھ لندن سے آکر گرفتاری دی تھی۔ وہ کم و بیش اڑھائی مہینے جیل میں رہیں اس دوران ان کی والدہ کا انتقال بھی ہوا اور پیرول پر رہا ہوکر ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔

عمران خان کے دور حکومت کے دوران اگست 2019 میں مریم نواز کو نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کر لیا (فوٹو اے ایف پی)

عمران خان کے دور حکومت کے دوران اگست 2019 میں انھیں نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری کوٹ لکھپت جیل میں اس وقت عمل میں لائی گئی جب مریم نواز اپنے کزن یوسف عباس کے ہمراہ جیل میں قید اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لیے موجود تھیں۔
حمزہ شہباز
سابق وزیر اعلی پنجاب اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے اور نواز شریف کے بھتیجے حمزہ شہباز کا شمار ان سیاسی قیدیوں میں ہوتا جنہوں نے طویل عرصے تک صبر کے ساتھ جیل کاٹی۔
حمزہ شہباز نے عمران خان کے دور حکومت میں بیس ماہ سے زائد عرصہ جیل میں گزارا جو عمران خان کے دور میں کسی بھی سیاسی رہنما کی سب سے طویل حراست سمجھی جاتی ہے۔
حمزہ شہباز مشرف دور میں بھی کئی ماہ تک جیل میں رہے۔
2000 میں جب شریف خاندان ملک بدر ہوا اس وقت حمزہ شہباز شریف کو پاکستان میں خاندانی کاروبار اور خاندانی معاملات کو دیکھنے کے لیے ملک میں ہی رہنے دیا گیا۔
شریف خاندان کے علاوہ مسلم لیگ ن کے سابق رہنما جاوید ہاشمی، شاہد خاقان عباسی نے مشرف دور میں بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ شاہد خاقان عباسی کو عمران خان کے دور حکومت میں مفتاح اسماعیل کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔
ان کے علاوہ مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت میں سے خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ سلمان رفیق اور کئی دیگر گرفتار ہوئے۔

شیئر: