اپوزیشن کے نئے ’سیاسی اتحاد‘ میں کون سی پارٹیاں شامل؟
اپوزیشن کے نئے ’سیاسی اتحاد‘ میں کون سی پارٹیاں شامل؟
جمعہ 2 اگست 2024 18:03
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
اسد قیصر نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں کے الائنس کو مزید وسیع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے (فوٹو: پی ٹی آئی ایکس)
تحریک انصاف نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کے بعد اب اپوزیشن جماعتوں کا ایک اور الائنس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اتحاد کا باضابطہ اعلان جمعرات کو تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے نئے سیاسی اتحاد میں شمولیت کے لیے تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل پانچ جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت سندھ اور خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں کو بھی بھرپور دعوت دی جائے گی۔
کچھ ہی مہینوں کے دوران تحریک انصاف کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے نئے سیاسی اتحاد کے اعلان کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ الائنس پہلے سے قائم کیے گئے اپوزیشن جماعتوں کے الائنس سے کیسے مختلف ہو گا اور کیا جمعیت علمائے اسلام اس میں شامل ہو گی؟
اس حوالے سے جمیت علمائے اسلام ف کے مرکزی ترجمان اسلم غوری نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا کہ اپوزیشن جماعتوں کے نئے اتحاد میں شمولیت کے لیے اُن کی جماعت کے ساتھ ابھی کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی تحریک انصاف کے ساتھ حکومت مخالف تحریک میں شمولیت دونوں جماعتوں کی جانب سے قائم کی گئی مذاکراتی کمیٹی کی سفارشات پر منحصر ہو گا۔
نئے اتحاد میں سب جماعتوں کو اکٹھا کریں گے: اسد قیصر
جمعرات کو بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے آئندہ 15 روز کے اندر نیا سیاسی اتحاد قائم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات میں اپوزیشن جماعتوں کے الائنس کو مزید وسیع کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ جس کے تحت حکومت کے خلاف تحریک کو مزید موثر بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل نہ ہونے والی جماعتوں جس میں جمیعت علمائے اسلام ف سر فہرست ہے کو نئے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’نئے سیاسی اتحاد کا مقصد حکومت کے خلاف بھرپور عوامی تحریک چلانا ہے۔ ہر اُس پارٹی کو ساتھ ملائیں گے جو اس حکومت کے خلاف ہو۔ ہم سب کے لیے آواز اٹھائیں گے اور سب کو جلسے میں دعوت دیں گے۔‘
اُنہوں نے جماعت اسلامی کے دھرنے میں شمولیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف جماعت اسلامی کے دھرنے کی حمایت کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہو گی جماعت اسلامی کو بھی نئے سیاسی اتحاد میں شامل کریں۔‘
یاد رہے کہ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں پی ٹی آئی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، سنی کونسل اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں جبکہ جماعت اسلامی اس اتحاد میں بطور ’آبزرور‘ جماعت شامل ہے۔
اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ پارٹی مشاورت سے کیا جائے گا: ترجمان جے یو آئی
پی ٹی آئی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کا نیا اتحاد قائم کرنے کے اعلان کے بعد جب اس بارے میں جمعیت علمائے اسلام ف کا مؤقف جاننے کے لیے جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف کی جانب سے نئے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اُن کی جماعت سے ابھی رابطہ نہیں کیا گیا۔
اُنہوں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کی دعوت ملنے پر یہ معاملہ پارٹی کے سامنے رکھا جائے گا جس پر باضابطہ مشاورت اور پارٹی موقف کو دیکھتے ہوئی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
اسلم غوری کا کہنا تھا کہ نئے اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے سے قبل اُس کے اعراض و مقصد جاننا ضروری ہیں۔ سب سے پہلے یہ معلوم کیا جائے گا کہ نئے اتحاد کا مقصد کیا ہے اور اُس میں کون کون سی جماعتیں شامل ہوں گی۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کا حصہ نہ بننے کی وجہ عدم مشاورت تھی: جے یو آئی
اس سے قبل اپوزیشن کی جانب سے بنائے گئے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں جمیعت علمائے اسلام کے شامل نہ ہونے کی وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کا اتحاد قائم کرنے سے قبل جمعیت علمائے اسلام کو اعتماد میں نہیں لیا تھا یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی جانب سے اُس میں شامل نہ ہونے ک فیصلہ کیا گیا تھا۔
جے یو آئی ف کے ترجمان اسلم غوری سے جب مولانا فضل الرحمان کا پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے سے متعلق سوال کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا اس حوالے سے پی ٹی آئی اور جمیعت علمائے اسلام ف کی ایک مزاکراتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کی سفارشات کی روشنی میں ہی آگے بڑھا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذاکراتی کمیٹی کی ایک میٹنگ ہو چکی ہے۔ جس میں ٹی او آرز طے کر دیے گئے ہیں۔ اب آنے والے دنوں میں مذاکراتی کمیٹی کی مزید میٹنگز ہوں گی اور دونوں جماعتوں کے حکومت کے خلاف مشترکہ اتحاد کا فیصلہ کیا جائے گا۔
کیا نیا سیاسی اتحاد حکومت کے خلاف مؤثر ثابت ہو گا؟
سینیئر سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے خلاف کے خلاف ایک اور اتحاد قائم کرنے کا اعلان تو کر دیا گیا ہے، تاہم پی ٹی آئی ابھی تک بطور اپوزیشن جماعت کوئی واضح حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکی۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اب یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیا وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں گے یا حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ کسی واضح حکمت عملی کے بغیر سیاسی اتحاد کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔
تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا اتحاد قائم ہونے کی صورت میں اس کا حکومت پر کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس اتحاد کو قائم کر کے کیسے آگے بڑھتی ہیں۔
اُنہوں نے مولانا فضل الرحمان کی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ایک سمجھدار سیاستدان ہیں، تاہم وہ اتحادیوں کو ہمیشہ اسمبلیوں سے استعفیٰ کا ہی مشورہ دیتے ہیں۔ اُنہوں نے ماضی کے اندر مسلم لیگ ن کو بھی اسمبلیوں سے استعفوں کا مشورہ دیا تھا اور اب پی ٹی آئی کو بھی یہی مشورہ دے رہے ہیں۔ بظاہر اگر وہ اس معاملے پر پی ٹی آئی کو قائل کر لیتے تو ہی دونوں جماعتوں کا اتحاد ممکن ہو گا۔