مزید فسادات کا خدشہ: برطانیہ بھر میں 6 ہزار تربیت یافتہ پولیس اہلکار تعینات
فسادات کے خدشات کے پیش نظر حکام برطانیہ بھر میں چھ ہزار سے زائد خصوصی تربیت یافتہ پولیس افسران کو متحرک کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی پولیس ایک بار پھر انتہائی دائیں بازو کی جانب سے تشدد اور فسادات کے خدشات کا سامنا کر رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ میں ایک ہفتے کے فسادات اور افراتفری کے بعد پولیس کو خدشہ ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے گروپ بدھ کی رات کو برطانیہ بھر میں 30 مقامات پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
حکام برطانیہ بھر میں چھ ہزار سے زائد خصوصی طور پر تربیت یافتہ پولیس افسران کو متحرک کر رہے ہیں اور لندن میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کریں گے۔
ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر اینڈی ویلینٹائن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نفرت انگیزی اور تقسیم پر یقین رکھنے والے گروپوں کی منصوبہ بندی کا علم ہے۔‘
’انہوں نے افراتفری اور تقسیم کرنے کے اپنے ارادوں کو واضح کیا ہے لیکن ہم اپنی سڑکوں اور گلیوں میں اس کو برداشت نہیں کریں گے۔‘
گذشتہ ہفتے ساؤتھ پورٹ سٹی میں تین نوجوان بچیوں کی ہلاکت کے بعد غلط خبروں اور افواہوں کے سبب پھیلنے والے پرتشدد مظاہروں اور فسادات نے پورے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
بچیوں کو چاقوں سے حملہ کرکے قتل کرنے والے ملزم کی شناخت غلط طور پر مسلمان تارکین وطن کے طور پر کی گئی جس کے بعد انتہائی دائیں بازو کے فسادیوں نے مسلم اور تارکین وطن مخالف نعرے لگا کر نہ صرف مسجدوں بلکہ ہوٹلوں اور ان جگہوں پر حملے کیے جہاں پناہ گزین رہائش پذیر ہیں۔
بعض علاقوں میں پرتشدد جوابی حملے کی رپورٹیں بھی موصول ہو رہی ہیں۔
انٹرنیٹ چیٹ گروپس میں لسٹیں شیئر کی گئی ہے جن میں امیگریشن کا کام کرنے والی قانونی فرمز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔
چیٹ گروپس میں شیئر کیے گئے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ ان جگہوں پر حملے کے وقت ماسک استعمال کریں۔
دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے مسلسل دوسری بار حکومت کی کوبرا ایمرجنسی ریسپانس کمیٹی کا اجلاس کیا جس میں بقول وزیراعظم ’دائیں بازو کی بدمعاشی‘ کا جواب دینے کی حکمت عملی طے کی گئی۔
پولیس نے پورے ملک میں 400 سے زائد گرفتاریاں کی ہے اور حکومت نے ان فسادات کی منصوبہ بندی اور اس میں شامل ہونے والوں پر مقدمہ چلانے اور انہیں جیل میں بند کرنے کا عزم کیا ہے۔
ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے جنہوں نے ان فسادات میں حصہ لینے کا اعتراف کر لیا ہے۔