Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محمد یونس ڈھاکہ پہنچ گئے: کیا فیصلہ سازی میں نوجوان بھی شامل ہوں گے؟

بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے اعلان کیا ہے کہ عبوری حکومت کی تقریب حلف برداری جمعرات کی شام 8 بجے منعقد ہو گی۔ جمعرات کی دوپہر عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس ڈھاکہ پہنچ گئے ہیں۔
جمعرات کو ڈھاکہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد یونس نے کہا کہ ’آج ایک شاندار دن ہے۔ وہ انقلاب جس کے ذریعے بنگلہ دیش نے فتح کا ایک نیا دن تشکیل دیا ہے۔ ہمیں اب مضبوطی سے آگے بڑھنا ہے اور اس (انقلاب) کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے۔‘
ڈھاکہ ٹریبیون کے مطابق بدھ کی سہ پہر آرمی ہیڈ کوارٹرز میں پریس بریفنگ کے دوران فوج کے سربراہ نے بتایا کہ ان کے خیال میں کابینہ ابتدائی طور پر 15 ارکان پر مشتمل ہو گی۔
15 برس سے زائد عرصے تک اقتدار کے منصب پر فائز رہنے والے شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہو کر ملک سے چلے جانے کے بعد ایک آزاد بنگلہ دیش کا دوبارہ جنم ہوا ہے۔
نوجوان رہنما جنہوں نے طلبہ کو مظاہروں کی ترغیب دی، ان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ ملک کے سیاسی نظام میں اپنا کردار ادا کریں۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عبوری حکومت اِن نوجوانوں کو سُنے گی اور ملک میں حقیقی تبدیلی لائے گی؟
بنگلہ دیش میں طلبہ نے گذشتہ ماہ جولائی کو کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا جسے بنگلہ ہائی کورٹ نے جون میں بحال کیا تھا۔
اس کوٹہ سسٹم میں بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی کے سابق فوجیوں اور ان کے رشتے داروں کے لیے 30 فیصد سرکاری ملازمتیں مختص تھیں۔
طلبہ مظاہرین نے موجودہ نظام کو غیرمنصفانہ اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے میرٹ پر مبنی سسٹم کا مطالبہ کیا۔
طلبہ مظاہرین، پولیس اور حکمراں جماعت کے کارکنوں کے درمیان کئی دنوں کی جھڑپوں کے بعد، سپریم کورٹ نے سابق فوجیوں اور ان کے رشتے داروں کے لیے ملازمتوں کے کوٹے کو کم کر کے صرف 5 فیصد کر دیا۔
تاہم اس کے باوجود مظاہرین کئی ہفتوں سے جاری جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کے ’احتساب‘ کا مطالبہ کرتے رہے۔
وزیراعظم نے مظاہرین کو ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔
اتوار کو بنگلہ دیش کی تاریخ کے سب سے بدامن دنوں میں سے ایک قرار دیا گیا جس دن پُرتشدد مظاہرے کے دوران 98 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال ملک کے نوجوانوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کا اہم موقع فراہم کرتی نظر آ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جیسے جیسے بدامنی بڑھتی گئی، شیخ حسینہ واجد کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑتی گئی اور بالآخر وہ ملک سے جانے پر مجبور ہو گئیں۔
اگرچہ طلبہ کا احتجاج کوٹہ سسٹم کے خلاف تھا تاہم ملک میں جابرانہ سیاسی فضا، کمزور معیشت اور حکومت کی عدم مساوات، نوجوانوں کی بےروزگاری اور افراطِ زر میں اضافے جیسے اہم مسائل سے نمٹنے میں ناکامی نے عوام میں بےچینی کو بڑھاوا دیا۔
بنگلہ دیش نے 2009 میں حسینہ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اہم اقتصادی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس میں زیادہ تر گارمنٹس کی صنعت کو تقویت ملی ہے۔
لیکن اس حقیقت کے باوجود عوام میں حکومت کی طرف سے عدم اطمینان بڑھتا گیا۔
یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو اپنے کم تعلیم یافتہ ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ بے روزگاری کی شرح کا سامنا کرنا پڑا۔
افراط زر اور بڑھتے ہوئے اخراجات نے ان مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ حکومت کی جانب سے ایک ہی سال میں تین بار بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باعث یوٹیلیٹی لاگت بڑھ گئی۔
اس لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کی بنیادی وجوہات بہت گہری ہیں اور یہ اشتعال خاص طور پر مایوس اور سیاسی طور پر پسماندہ نوجوانوں کے لیے تھا۔
ان کے مطالبات واضح تھے، وہ منصفانہ انتخابات، حکومتی احتساب، اور جمہوری روایات کی بحالی چاہتے تھے۔
حالیہ مظاہروں نے جمہوریت کی نچلے طبقے سے اوپر تک منتقلی کی اُمید پیدا کی ہے۔

بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے اِن مظاہروں سے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور اپنے مستقبل کی خاطر لڑنے کے لیے تیار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اگرچہ فوج نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ عبوری حکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ نوجوان رہنماؤں کو فیصلہ سازی کی میز پر مدعو کیا جائے گا یا نہیں۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور جمہوریت کے لیے پُرعزم ہونے کے باوجود بنگلہ دیش کی نوجوان نسل خصوصاً خواتین روایتی اور پدرانہ سیاسی نظام کی وجہ سے اُبھر کر سامنے نہیں آ سکیں۔
مثال کے طور پر صرف 0.29 فیصد پارلیمنٹیرینز کی عمر 30 سال سے کم اور 5.71 کی عمر 40 برس سے کم تھی۔
بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال ملک کے نوجوانوں کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کا اہم موقع فراہم کرتی نظر آ رہی ہے۔
مظاہروں کا سبب بننے والے بنیادی معاشی اور سماجی معاملات دراصل نوجوانوں کے ہی مسائل ہیں۔
بنگلہ دیش کے نوجوانوں نے اِن مظاہروں سے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور اپنے مستقبل کی خاطر لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

شیئر: