صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہنہ جھیل میں تین سے زائد مقامات سے پانی رسنے لگا جس کے باعث جھیل میں پانی کی سطح کئی فٹ گر گئی ہے اور اس کے خشک ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
پانی کی سطح کم ہونے سے جھیل کی خوبصورتی بھی ماند پڑ گئی ہے۔ ماہرین، واٹر سپورٹس کے کھلاڑیوں اور مقامی لوگوں نے اس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
محکمہ آبپاشی کے حکام کے مطابق جھیل سے پانی کے رِسنے کی شکایت رواں برس اپریل میں سامنے آئی تھی جس کے بعد سے اس کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔
ہنہ جھیل میں گذشتہ 40 برسوں سے واٹر سپورٹس اکیڈمی چلانے والے حیات اللہ خان درانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جھیل سے پانی کا رساؤ گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے جس کی وجہ سے اس کی سطح میں گذشتہ دو سے تین ماہ کے دوران تقریباً 13 فٹ کی کمی آئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’چند ماہ قبل جھیل میں 27 فٹ تک پانی تھا جو اب کم ہو کر صرف 14 فٹ رہ گیا ہے جس کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ لیکج کو نہ روکا گیا تو یہ جھیل دوبارہ خشک ہو جائے گی جس سے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی طور پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصہ پہلے یہ جھیل 16 سال بعد بھری تھی جس سے اس کی خوبصورتی واپس لوٹ آئی تھی اور سیاحوں نے بڑی تعداد میں یہاں کا رُخ کرنا شروع کر دیا تھا، جبکہ جھیل میں کشتی رانی اور واٹر سپورٹس کے مقابلوں اور تربیت کے لیے بھی ماحول سازگار ہو گیا تھا۔ تاہم پانی کے مسلسل رساؤ نے خدشات کو جنم دیا ہے۔‘
محکمہ آبپاشی کے چیف انجینیئر بشیر الدین ترین کے مطابق ’اپریل میں بارشوں کے بعد ہنہ جھیل بھر گئی تھی اور اس میں صرف دو میٹر پانی کی گنجائش رہ گئی تھی تب لوگوں نے لیکج اور سپیچ کی شکایت کی چنانچہ ماہرین کے ہمراہ جھیل کا دورہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں جھیل کے بیرونی اور نچلے حصے میں تین سے زائد مقامات پر لیکج ملا جس سے کم مقدار میں پانی خارج ہو رہا ہے تاہم جھیل کی ڈیم باڈی درست حالت میں ہے اور اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں اس لیے ہم جھیل کو خالی نہیں کر رہے۔‘
انہوں نے لیکج کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس جھیل کی تعمیر کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس کے تمام اطراف میں چٹانیں ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور زلزلوں کی وجہ سے چٹانوں کی ساخت غیرمستحکم ہو جاتی ہے اور اس میں دراڑیں پیدا ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے پانی کا رساؤ شروع ہو جاتا ہے۔‘
’ماہرین کی مدد سے ہم نے لیکج کے تدارک کے لیے جدید تدابیر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک فزیبلٹی رپورٹ بنا کر محکمہ ترقی و منصوبہ بندی سے منظوری لی ہے۔ چار کروڑ روپے کے اس منصوبے پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا۔‘
بشیر الدین ترین کے مطابق ’ہم جھیل کو دوبارہ اپنی اصل حالت میں لائیں گے۔ لیکیج کو کنٹرول کرنے کے لیے گراؤٹنگ کے طریقہ کو استعمال کریں گے اور سیمنٹ کو انجیکٹ کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جھیل کے درمیان والے حصے سے بھی لیکج کی اطلاع ملی ہے لیکن فی الحال چونکہ جیل میں پانی ہے تو اس وجہ سے اسے دیکھا نہیں جا سکتا، اس لیے ہم جھیل کے خشک ہونے کی صورت میں ہی اس پر کام کریں گے۔‘
خیال رہے کہ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے ہنہ اوڑک اور ہنہ جھیل میں چار ہفتوں تک سیاحوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس پابندی کے حوالے سے چیف انجینیئر محکمہ آبپاشی نے کہا کہ اس پابندی کا جھیل کے لیکج سے کوئی تعلق نہیں، شاید زیادہ بارشوں اور سیلاب کے خطرے کی وجہ سے انتظامیہ کی جانب سے یہ پابندی لگائی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چار مہینوں میں جھیل میں تین سے چار میٹر پانی کم ہوا ہے تاہم اس میں زیادہ عمل دخل بخارات کا ہے۔ پانی قدرتی عمل کی وجہ سے کم ہو رہا ہے کچھ پانی زمین میں جذب ہو رہا ہے اور کچھ بخارات بن کر ہوا میں اڑ رہا ہے۔ گرمیوں میں پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔
کوئٹہ سے شمال مشرق میں 17 کلومیٹر دور ہنہ جھیل سنہ 1894 میں برطانوی دور میں زیرِزمین پانی کی سطح بلند رکھنے، اراضی کو سیراب کرنے اور لوگوں کی تفریح کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس جھیل میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 818 ایکڑ یا 26 کروڑ گیلن ہے اور اس کی گہرائی 49 فٹ ہے۔
ہنہ اوڑک کے قدرتی چشموں، زرغون اور مردار پہاڑوں سے برفباری، بارش اور سیلاب کے پانی کا رُخ موڑ کر اس جھیل تک لانے کے لیے ہنہ اوڑک دریا پر سرپل کے مقام پر ایک ہیڈ ریگولیٹر اور کینال تعمیر کی گئی تھی۔
یہ ہیڈ ریگولیٹر سنہ 1976 میں سیلاب سے تباہ ہو گیا تھا۔ سال 2022 میں بلوچستان حکومت نے 17 کروڑ روپے کی لاگت سے اس ہیڈ ریگولیٹر اور سات ہزار فٹ طویل ڈائیورژن چینل کی بحالی کے منصوبے پر کام شروع کیا۔
سینیئر بیوروکریٹ ہاشم غلزئی اس جھیل سے رغبت رکھتے ہیں۔ وہ گذشتہ تین دہائیوں سے وقتاً فوقتاً یہاں آتے ہیں اور ایک واٹر سپورٹس اکیڈمی کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بارشوں کا پانی جھیل تک لانے کے لیے بنائی گئی کینال پتھروں اور مٹی سے بھر گئی تھی۔ خشک سالی اور کینال خراب ہونے کی وجہ سے یہ جھیل گذشتہ دو دہائیوں کے دوران زیادہ تر خشک رہی جس کی وجہ سے یہاں کا ایکو سسٹم تباہ ہو گیا۔‘
’ہماری کوششوں سے سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے کینال کی بحالی کے لیے منصوبے کی منظوری دی جس پر کافی کام ہوچکا ہے۔ بارشوں میں اضافے اور کینال کی بحالی سے جھیل میں پانی کی سطح بہتر ہوئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے جھیل میں اب لیکج پیدا ہو گئی ہے جس سے جھیل کے خشک ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، اگر ایسا ہوا تو اس کے ناصرف زیرزمین پانی کی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اردگرد بسنے والے چرند پرند کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے اور مہاجر پرندوں کی پانی کی ضروریات پورا ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔‘
ہاشم غلزئی نے مزید کہا کہ ’جھیل کے خشک ہونے کے سماجی اور معاشی نقصانات بھی ہیں۔ یہ جھیل گذشتہ ایک صدی سے کوئٹہ کے لوگوں کے لیے تفریح کا بڑا ذریعہ رہی ہے۔ جب جھیل بھری ہوتی ہے تو سیاحوں کا رش ہوتا ہے جب پانی کم ہوتا ہے تو سیاح بھی کم آتے ہیں، اس طرح جھولے، ریستورانوں اور دیگر کاروبار چلانے والوں کا روزگار بھی اس سے وابستہ ہے۔‘
ہنہ جھیل میں تفریح کے لیے آنے والے کوئٹہ کے رہائشی عبدالوحید کے مطابق دو تین ماہ پہلے جب جھیل بھری ہوئی تھی تو اس کا نیلگوں پانی خوبصورت نظارہ پیش کر رہا تھا، سیاحوں کا بھی بہت زیادہ رش تھا، اب جھیل میں جھاڑیاں اور پانی گدلا نظر آ رہا ہے اس کی سطح بھی کافی کم ہوگئی ہے اور یوں یہ جھیل اپنی خوبصورتی کھو رہی ہے۔
ہنہ اوڑک کے رہائشی نجیب کاکڑ کا کہنا تھا کہ یہ جھیل قریبی علاقوں میں زیرِزمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے کاشت کاروں کو فائدہ ہوتا ہے۔ حکومت کو اس جھیل سے پانی کی لیکج روکنے کے لیے تعمیر و مرمت کے کام کو جلد سے جلد شروع کرنا چاہیے تاکہ بارشوں کا پانی ضائع نہ ہو۔
واٹر سپورٹس اکیڈمی کے چیف ایگزیکٹیو حیات اللہ خان درانی کا کہنا ہے کہ ہنہ جھیل میں بلوچستان ہی نہیں بلکہ ملک کی پہلی واٹر سپورٹس اکیڈمی قائم ہے یہاں سے تربیت حاصل کرنے والے کھلاڑی اٹلی، کینیڈا اور دیگر ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے برسوں میں جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے سے کھیلوں کی سرگرمیاں معطل ہو گئی تھیں، اب طویل عرصے بعد جھیل میں پانی آیا ہے تو کھیل کی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوئی ہیں۔ پانی کی کمی کے باعث مگر ایک بار پھر روئنگ اور کینوئنگ جیسی کھیلوں کی سرگرمیوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔