Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں چند روز قبل نظر آنے والا نایاب تیندوا شکار کر لیا گیا؟

سوشل میڈیا پر تصاویر میں بتایا گیا ہے کہ یہ شکار پیر بمبل شریف میں کیا گیا ہے (فائل فوٹو: نعیمہ زہری، ایکس
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں معدومی کے خطرے سے دو چار ایک تیندوے کے شکار کی  اطلاعات سامنے آنے کے بعد حکام نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تیندوے کے شکار کی وائرل تصاویر کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ  بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کی ہیں۔ 
محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ اب تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے  لیکن لسبیلہ، آواران اور خضدار سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں ٹیموں کو متحرک کر دیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زیرگردش تصاویر میں سے ایک شخص کو تیندوے کو شکار کرنے کے بعد پیٹھ پر اٹھا کر پہاڑ پر چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے تاہم یہ تصویر پیچھے سے لی گئی ہے جس کی وجہ سے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں ہو رہی۔
 اس طرح ایک اور تصویر میں شکار کیے گئے تیندوے کے ساتھ ایک شخص بندوق اٹھائے نظر آ رہا ہے لیکن اس تصویر میں بھی اس کا چہرہ چھپا ہوا ہے۔
یہ تصاویر ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب چند روز قبل ہی کراچی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے کنڈ ملیر کے قریب ہنگول نیشنل پارک کے پہاڑوں میں فارسی تیندوے (پرشیئن لیپرڈ)کو گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل  ہوئی۔
حکام کے مطابق تیندوےک ی یہ ویڈیو چند روز قبل کنڈ ملیر کے قریب ہنگول نیشنل پارک کے اندر واقع ہندوؤں کے تاریخی ہنگلاج ماتا مندر(نانی مندر) میں اپنے سالانہ مذہبی میلے کے لیے آنےوالے ہندو یاتریوں میں سے کسی نے بنائی تھی۔
بلوچستان میں کنزرویٹر وائلڈ لائف اینڈ نیشنل پارکس عرض محمد نے اردو نیوز کو  بتایا کہ اب تک ان تصاویر کے درست ہونے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے جس میں مردا تیندوا دکھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آج کل آرٹیفیشنل انٹیلیجنس (آے آئی ) کی مدد سے بھی جعلی تصاویر بنائی جاتی ہیں، اس لیے ہم  جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا یہ اے آئی تصاویر تو نہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے ) کے سائبر کرائم ونگ سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ یہ کس علاقے کی تصویر ہے لیکن اس کے باوجود ہم نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
’ہنگول نیشنل پارک میں ہماری ٹیمیں تحقیقات میں مصروف ہیں تاہم 15 لاکھ ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلے نیشنل پارک میں 70 سے بھی کم افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ یہ کام بہت مشکل ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہنگول کے علاوہ لسبیلہ، آواران اور دیگر متعلقہ علاقوں میں تعینات محکمہ جنگلی حیات کی ٹیموں، سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی سے بھی مدد لی جا  رہی ہے۔
ہنگول نیشنل پارک کے منتظم شیر احمد کے مطابق اب تک کی تحقیقات میں تیندوے کے شکار کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ سوشل میڈیا پر تصاویر میں بتایا گیا ہے کہ یہ شکار پیر بمبل شریف میں کیا گیا ہے جو نیشنل پارک کی حدود سے کافی باہر ہے۔
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر( ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے تکنیکی مشیر اور ماہر امور جنگلی حیات محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ تصاویر میں نظر آنے والے پہاڑوں کی ساخت سے یہ پیر بمبل شریف کا ہی علاقہ لگتا ہے جو ضلع لسبیلہ کی ہی حدود میں ہے لیکن ہنگول نیشنل پارک نانی مندر سے پیر بمبل شریف کا علاقہ ڈیڑھ دو سو کلومیٹر دور ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نانی مندر کے قریب تیندوے کو صرف چند روز قبل دیکھا گیا تھا۔ یہ جانور طویل سفر کرتا ہے لیکن عام حالات میں اتنے کم دنوں اور اتنی تیز رفتاری سے اتنا طویل سفر نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ چند روز قبل نانی مندر میں نظر آنے والے تیندوے کا شکار کیا گیا ہے۔‘
محکمہ جنگلی حیات کے عہدے دار عرض محمد کا کہنا ہے کہ پیر بمبل شریف  بھی تیندوے کے قدرتی مسکن اور گزرگاہ میں آتا ہے۔ ہم نے وہاں کے عمائدین سے بھی تعاون کی درخواست کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس علاقے میں شکار ہوا ہے، اس وقت تک قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ شکار کے علاقے اور یا ملزمان کی نشاندہی ہو جائے تو فوری قانونی کارروائی شروع کریں گے۔‘
Endangered Persian leopards shot on trap camera. Watch incredible video |  Trending - Hindustan Times
سوشل میڈیا صارفین بھی نایاب نسل کے جانور کے شکار پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں (فائل فوٹو:سکرین گریب)

فیکٹ چیکنگ کے ماہر کھوسو سیف اللہ نے بتایا کہ ’ بغور دیکھنے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ اس میں اے آئی یا کسی فوٹو سافٹ ویئر کی مدد لی گئی ہے۔ یہ حقیقی تصاویر معلوم ہوتی ہیں۔‘
گوگل کی ریورس امیج سرچ سروس کے مطابق یہ تصویر سب سے پہلے 24 اپریل کی صبح بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی نعیمہ زہری نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کی۔
انہوں نے تصویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ چیتا ہے اس کو ضلع لسبیلہ کے پہاڑی علاقے پیر بمبل شریف کے علاقے میں مارخور کے شکار کے دوران مارا گیا ہے ۔‘
اس کے بعد یہ تصویر وائرل ہوئی اور ملک کے معروف صحافی حامد میر نے بھی اس سوال کے ساتھ ری پوسٹ کیا کہ ’پاکستان بھر میں ان جانوروں کے قتل کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟
سوشل میڈیا کے دیگر صارفین بھی نایاب نسل کے جانور کے شکار پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔
اردو نیوز نے مزید معلومات کے لیے صحافی نعیمہ زہری سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔
پرشیئن لیپرڈ
یہ پاکستان میں پائی جانےو الی تیندوں کی تین نسلوں میں سے ایک ہے۔ مقامی بلوچی زبان میں اسے پولنگ، پشتو میں پڑانگ اور براہوی زبان میں خہلیغا کہتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ آرمینیا، آذربائیجان، ترکی، ترکمانستان، افغانستان میں بھی اس قسم کے پائے جاتے ہیں مگر اس کا اصل مسکن ایران کو سمجھا جاتا ہے، اسی لیے اسے پرشیئن لیپرڈ یا فارسی تیندوے کہا جاتا ہے۔
یہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں  پائے جاتے ہیں۔بلوچستان میں اس کا مسکن ہنگول نیشنل پارک سمیت کیرتھر پہاڑی سلسلے کے دیگر علاقے، ہزارگنجی نیشنل پارک اور کوہ چلتن ہے۔
مئی 2021 میں کوئٹہ کے قریب ہزارگنجی نیشنل پارک میں اس کے ایک جوڑے کی محکمہ جنگلی حیات نے عکس بندی کی تھی۔
چھوٹی ٹانگوں اور بھاری جسامت کے حامل اس جانور کی پیلے اور سنہری مائل بھوری رنگ کی کھال پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔
Rare Persian Leopard Pair Spotted In Pakistan
مقامی بلوچی زبان میں اسے پولنگ، پشتو میں پڑانگ اور براہوی زبان میں خہلیغا کہتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان میں محکمہ جنگلی حیات کے سربراہ شریف الدین بلوچ کے مطابق یہ آبادی سے دور بلند پہاڑیوں میں رہتا ہے اور اکیلا رہنے کا عادی ہے۔ صرف ملاپ یا پھر بچے کی پرورش کے دوران جوڑے کی صورت میں رہتا ہے۔
ان کے مطابق  تیندوے کو قدرتی و ماحولیاتی نظام کے سب سے بڑے شکاریوں میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سبزہ خور پہاڑی جانوروں بالخصوص مارخوروں کو چست رکھنے، ان کی آبادی کو کنٹرول کرنے، قدرتی ماحول اور حیاتیاتی تنوع میں توازن پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا میں پرشیئن لیپرڈ کے بالغ جانوروں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہونے کی وجہ سے عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این )نے 2016 سے معدومی کے خطرے سے دو چار جانوروں کی فہرست یعنی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے ۔
آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں سالانہ چھ تیندوؤں کو مارا جاتا ہے۔ 1998 سے 2015 تک پاکستان میں تیندوے مارے جانے کے  105 واقعات رپورٹ ہوئے۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف مونٹانا کی 2007 کی ایک تحقیق کے مطابق 1989 سے 2007 تک ایوبیہ نیشنل پارک میں تیندوؤں کے حملوں میں 16 انسان مارے گئے ۔ اسی دورانیے میں انسانوں کے ہاتھوں 44 تیندوؤں کی موت ہوئی۔
محکمہ جنگلی حیات بلوچستان کے چیف کنزرویٹر شریف الدین بلوچ  نے اردو نیوز  سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ’گزشتہ تین برسوں میں مستونگ اور ڈیرہ بگٹی میں اس نایاب نسل کے کم از کم دو تیندوے مارے جانے کی تصدیق ہوئی ہے۔‘
ان کے بقول کافی عرصے بعد مارے گئے ان تیندوں کی باقیات ملی تھیں۔
اگر لسبیلہ میں تیندوے کے شکار کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ حالیہ برسوں میں ایسا تیسرا واقعہ ہو گا۔
Observing Five Persian Leopards on World Wildlife Day - Visit Our Iran -  Discover Iran
آئی یو سی این کے مطابق  پاکستان میں سالانہ چھ تیندوؤں کو مارا جاتا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

محکمہ جنگلی حیات بلوچستان کے کنزرویٹر عرض محمد کے مطابق تیندوے کا شکار بلوچستان کے جنگلی حیات کے تحفظ کے 2014 کے قانون کے تحت جرم ہے جس میں کم از کم تین ماہ کی قید اور جرمانے کی سزا اور جانور کی قدر کے برابر قیمت کی وصولی بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مستونگ اور ڈیرہ بگٹی کے علاوہ  تقریباً ایک دہائی قبل مکران میں بھی اس کے شکار کی خبر آئی تھی تاہم حالیہ برسوں کے دوران صرف ڈیرہ بگٹی میں شکار کی شکایت پر عدالت میں چالان جمع کرایا گیا تھا تاہم اس میں بھی ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی تھی۔
رواں برس جنوری میں کیرتھر پہاڑی سلسلے میں سندھ کے علاقے بچل سونہیرو  میں مقامی لوگوں نے تیندوے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس پر محکمہ جنگلی حیات سندھ نے پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا اور تیندوے کی لاش بھی کوٹڑی کی عدالت میں پیش کی تھی۔
شریف الدین بلوچ کے مطابق تیندوا اپنی خوراک کے لیے آبادی سے دور پہاڑی و جنگلی بکریاں، مارخور، اڑیال، چنکارا وغیرہ کا شکار کرتا ہے لیکن جب خوراک کی کمی کی وجہ سے یہ جانور مال مویشیوں کے شکار کے لیے آبادی کے قریب جاتا ہے تو انسانوں سے اس کا ٹکراؤ ہونے کی صورت میں مارا جاتا ہے۔
بعض لوگ فرسودہ روایت کے تحت بھی تیندوے یا شیر کا شکار کرکے اس عمل کو بہادری سے تعبیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔
محکمہ جنگلی حیات کے حکام کا کہنا ہے کہ تحقیق، فنڈز، عملے اور وسائل کی کمی اور عوام میں آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے معدومی کے خطرے سے دوچار اس  جانور کا تحفظ بڑا چیلنج ہے۔
آئی یو سی این کے مطابق پاکستان میں فارسی تیندوے کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تک ہو سکتی ہے تاہم محکمہ جنگلی حیات اور نیشنل پارکس کے کنزرویٹر عرض محمد کے مطابق پاکستان اور بلوچستان میں طویل عرصے سےاس کی تعداد کا درست تخمینہ لگانے کے لیے کوئی سروے نہیں ہوا۔ نئے سروے کی فوری ضرورت ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ پر کام کرنے والے عالمی ادارے اور ماہرین نے پاکستان میں نایاب نسل کے جانوروں بالخصوص تیندوؤں کے تحفظ کے لیے تحقیق اور اقدامات پر زور دیا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ تیندوے کے قدرتی مسکن کے قریب رہنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر اس جانور کے تحفظ کے لیے کام نہ کیا گیا تو کئی دیگر جانوروں کی طرح فارسی تیندوے کی نسل بھی پاکستان میں معدوم ہو سکتی ہے۔

شیئر: