Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاریخی سبی ہرنائی ریلوے ٹریک، جو بحالی کے بعد صرف نو ماہ ہی نکال سکا

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں تین ارب روپے کی لاگت سے بننے والا سبی ہرنائی ریلوے ٹریک چند ماہ بھی نہ نکال سکا۔ اور بارشوں میں اس تاریخی ریلوے ٹریک کا کئی کلومیٹر حصہ بہہ گیا۔
پاکستان ریلویز کوئٹہ ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ عمران حیات نے اردو نیوز کو بتایا کہ حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں 94 کلومیٹر طویل سبی ہرنائی ریلوے ٹریک کا بابر کچھ اور سپین تنگی کے درمیان تقریباً 50 کلومیٹر سے زائد حصہ متاثر ہوا۔ اس کی وجہ سے 24 جولائی سے دونوں شہروں کے درمیان ٹرین سروس معطل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹریک کی بحالی کے لیے تین کروڑ روپے جاری کر دیے گئے ہیں۔ مرمت کا کا کام گذشتہ کئی دنوں سے جاری ہے لیکن مسلسل بارشوں کی وجہ سے کام میں مشکلات کا سامنا ہے۔
عمران حیات نے امید ظاہر کی کہ بارش رکنے کی صورت میں چند دنوں میں ٹریک کو آمدروفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بابر کچھ اور سپین تنگی کے درمیان ریلوے ٹریک پہاڑی علاقوں میں دریا اور ندی کے ساتھ بچھا ہوا ہے۔ یہاں کی زمینی ساخت اس راستے کو مشکل بناتی ہے۔ ندی کے ساتھ حصے پر پختہ حفاظتی دیوار موجود نہیں جس کی وجہ سے سیلابی پانی ٹریک کے پشتے بہا کر لے جاتا ہے۔‘
ڈی ایس ریلوے کے مطابق ’ندی کے ساتھ بچھا ہوا ریلوے ٹریک کا حصہ بہت طویل ہے، اور اس پر حفاظتی دیوار بنانے کے لیے بہت بڑی رقم درکار ہے، جس کا بندوبست کرنا فی الحال ریلوے کے بس میں نہیں۔ اس ٹریک پر اس وقت صرف ایک مسافر ٹرین چل رہی ہے۔‘
’اس ٹریک کے ساتھ موجود پتھر گول ہونے کی وجہ سے پانی کا دباؤ نہیں سہہ پاتا، اس لیے سکھر سے ایک اضافی انجن منگوا کر سبی اور باقی شہروں سے بڑے پتھروں کو لا کر بچھا رہے ہیں۔‘
کوئٹہ ڈویژن کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ نے مزید بتایا کہ ’اس علاقے میں سکیورٹی کے خطرات ہیں، ٹریک پر کام کرنےوالے مزدوروں پر ماضی میں حملے ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی کی وجہ سے صرف دن کو کام کیا جاتا ہے۔ سکیورٹی کی وجہ سے بحالی کے کام کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘

عمران حیات نے امید ظاہر کی کہ بارش رکنے کی صورت میں چند دنوں میں ٹریک کو آمدروفت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ (فوٹو: شاہ حسین)

خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی کو سبی سے ملانے والی تاریخی ریلوے لائن کو صرف نو ماہ قبل بحال کیا گیا تھا۔ ڈی ایس ریلوے کے مطابق بحالی کے اس منصوبے پر تین ارب روپے سے زائد کی لاگت آئی۔
چند ماہ میں ہی ٹریک کیوں بارشوں کی نذر ہو گیا اور کیا تعمیراتی کام غیرمعیاری کیا گیا تھا، اس پر ڈی ایس ریلوے عمران حیات کا کہنا تھا کہ ریلویز ہیڈ کوارٹر کی انکوائری ٹیم نے اس بارے میں اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں، رپورٹ سامنے آنے کے بعد وجوہات کا پتہ چلے گا۔
انگریز دور میں 18 ویں صدی کے آخر میں بننے والا یہ ٹریک بلوچستان میں ریلوے کا سب سے منافع بخش سیکشن سمجھا جاتا تھا، جہاں سے مسافروں کی آمدروفت، پھلوں، سبزیوں اور کوئلہ کی ملک بھر میں ترسیل سے ماہانہ کروڑوں روپے آمدن ہوتی تھی۔
سنہ 2006 کے اوائل میں کالعدم مسلح تنظیم کے عسکریت پسندوں نے ریلوے لائن کے کئی پلوں اور پٹڑی کے ایک بڑے حصے کو سلسلہ وار بم دھماکوں کے ذریعے تباہ کردیا تھا جس کے باعث تقریباً سوا صدی میں پہلی بار اس ریلوے لائن پر 2006 سے 2023 کے درمیان تقریباً اٹھارہ برسوں تک کوئی ٹرین نہیں چلی۔
ہرنائی اور سبی کے لوگوں کے لیے یہ ٹرین سروس بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں شہروں کے درمیان پہاڑی راستہ دشوار گزار اور نا ہموار علاقے میں کوئی پختہ سڑک نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کچے اور پرخطرعلاقوں میں لوگ سفر کرنے سے کتراتے تھے، اور انہیں 94 کلومیٹر دور سبی جانے کے لیے پانچ اضلاع سے گزرنا پڑتا تھا۔

مارچ 2016 میں اس وقت کی حکومت نے اس منصوبے کی بحالی کا کام شروع کیا۔ (فائل فوٹو: ایکس)

طویل عرصے تک ٹرین سروس معطل ہونے کے سماجی و ثقافتی تعلقات اور تجارت پر منفی اثرات پڑے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اکتوبر 2023 میں 17 سال اور 8 ماہ بعد سبی سے پہلی ٹرین ہرنائی پہنچی تو لوگوں نے جشن منایا۔
ریلوے حکام کے مطابق تین ارب روپے کی لاگت سے سبی اور ہرنائی کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں 50 چھوٹے بڑے پل دوبارہ بنائے گئے، ہرنائی ریلوے سٹیشن کی ازسرنو تعمیر کی گئی جبکہ سبی ریلوے اسٹیشن کی مکمل تزئین و آرائش سمیت کل نو ریلوے اسٹیشنوں کو اپ گریڈ کیا گیا۔
ریلوے حکام کے مطابق سبی ہرنائی ریلوے کے پلوں اور ریلوے سٹیشنوں کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کا کام نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی )نے کیا جبکہ پٹڑی کی مرمت کا کام ریلوے نے خود کیا۔ ڈی ایس ریلوے کے مطابق طویل عرصہ تک ٹرین سروس بند ہونے کی وجہ سے  ٹریک کی حالت بہت خراب ہو گئی اور اس کے اثرات اب بھی باقی ہیں۔
سبی ہرنائی ریلوے لائن کے آس پاس کا علاقہ ابتدا سے ہی الگ تھلگ اور پسماندہ ہے۔ پورا علاقہ پہاڑی دشوار گزار اور نا ہموار ہے۔ اس ریلوے لائن کو بچھانے میں انگریزوں کو بھی قبائل کے حملوں، بیماریوں اور موسمی سختیوں سمیت بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مارچ 2016 میں اس وقت کی حکومت نے اس منصوبے کی بحالی کا کام شروع کیا۔ حکومت نے اس منصوبے کو مارچ 2018 تک مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم جنوری 2018 میں ناکس سٹیشن پر حملے کے نتیجے میں پانچ مزدوروں کے مارے جانے کے بعد بحالی کا کام روک دیا گیا تھا۔ سکیورٹی مسائل اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے یہ منصوبہ کئی سالوں تک التوا کا شکار رہا اور تعمیراتی کام شروع ہونے کے سات سال بعد اس کا پچھلے سال افتتاح ہوا۔

انگریز دور میں 18 ویں صدی کے آخر میں بننے والا یہ ٹریک بلوچستان میں ریلوے کا سب سے منافع بخش سیکشن سمجھا جاتا تھا۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ہرنائی کے رہائشی عبداللہ ترین کا کہنا ہے کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں کا بنایا ہوا ٹریک تو سو سال سے زائد عرصہ تک چلا لیکن ہمارا بنایا ہوا ٹریک چند ماہ ہی چل سکا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ریلوے ٹریک لوگوں کو سماجی، ثقافتی، مذہبی اور تجارتی طور پر جوڑتا ہے ، یہاں سے سبی سبزیاں بیچی جاتی ہیں، وہاں سے لوگ روز مرہ کی خوراک کی اشیا لاتے ہیں۔ اسی طرح ہرنائی میں رہنے والی ہندو برادری اپنی مذہبی تقریبات کے لیے سبی جاتی ہے۔
عبداللہ ترین کے مطابق ٹریک بند ہونے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں سبی تک جانے کے لیے متبادل راستے سے مہنگا اور طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔

شیئر: