Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہریوں کے ساتھ آن لائن ٹریڈنگ میں فراڈ، جعلی کمپنیاں کیسے کام کرتی ہیں؟

ایس ای سی پی کے لائسنس یافتہ بروکرز کی فہرست ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے (فوٹو: ان سپلیش)
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے شہریوں کو جعلی اور غیر قانونی آن لائن ٹریڈنگ پلیٹ فارم ’اوویوا سکیورٹیز ایکسچینج اکیڈیمی‘ میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کرنے سے خبردار کیا ہے۔
ایس ای سی پی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ’اویووا انویسٹمنٹ گروپ‘ کے جعلی ٹریڈنگ پلیٹ فارم کو مختلف واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے مارکیٹ کر رہا ہے۔
جعلی گروپ پاکستان سٹاک ایکسچینج اور دیگر بین الاقوامی سٹاک مارکیٹوں میں ٹریڈنگ پر خاطر خواہ منافع کا جھوٹا دعویٰ کر رہا ہے۔
ایس ای سی پی کے مطابق اس غیرقانونی پلیٹ فارم کی مینجمنٹ کمپنی، برطانیہ میں قائم ایک ایسٹ مینجمنٹ کمپنی ’اویووا انویسٹرز ‘ کے ساتھ وابستگی کا بھی جھوٹا دعویٰ کر رہی ہے۔
برطانوی کمپنی ’اویووا انویسٹرز‘ نے اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے الرٹ بھی جاری کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جعلی ٹریڈنگ پلیٹ فارم پاکستان سٹاک ایکسچینج پر ٹریڈنگ کے لیے کمپنی کے نام کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ 
ایس ای سی پی کی جانب سے شہریوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ’اویووا انویسٹمنٹ گروپ/ایچ 1- اویووا سکیورٹیز ایکسچینج اکیڈمی/ اویووا انویسٹمنٹ لمیٹڈ‘ پاکستان سٹاک ایکسچینج یا بین الاقوامی سٹاک ایکسچینج میں حصص کی تجارت کے لیے کوئی پلیٹ فارم چلانے کے لیے نہ تو رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی لائسنس یافتہ ہے۔‘
اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ سٹاک مارکیٹ یا مرکنٹائل ایکسچینج میں ٹریڈنگ کے لیے مجاز کمپنیوں کو ایس ای سی پی کی جانب سے سکیورٹیز اور فیوچر بروکرز کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
بغیر لائسنس بروکرز سٹاک ایکسچینج پر سرمایہ کاروں کے لیے ٹریڈنگ انجام دے ہی نہیں سکتے۔ ایس ای سی پی کے لائسنس یافتہ بروکرز کی فہرست ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
ایس ای سی پی نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اویووا انویسٹمنٹ گروپ/ایچ 1-اویووا سکیورٹیز ایکسچینج اکیڈمی/اویووا انویسٹمنٹ لمیٹڈ یا کسی بھی شکل یا انتظام میں اس طرح کے کسی ٹریڈنگ پلیٹ فارم کے ساتھ فنڈز جمع نہ کروائیں اور نہ ہی سرمایہ کاری کریں۔
اویووا انویسٹمنٹ گروپ/ایچ 1-اویووا سکیورٹیز ایکسچینج اکیڈمی/اویووا انویسٹمنٹ لمیٹڈ کا نام ایس ای سی پی کی ویب سائٹ پر دستیاب ’غیر مجاز سرگرمیوں میں مصروف کمپنیوں کی فہرست‘ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
مزید برآں ایس ای سی پی نے معاملے کو تحقیقات اور ضروری کارروائی کے لیے متعلقہ حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بھیج دیا ہے۔

بغیر لائسنس بروکرز سٹاک ایکسچینج پر سرمایہ کاروں کے لیے ٹریڈنگ انجام نہیں دے سکتے (فوٹو: اے پی پی)

آن لائن ٹریڈنگ سے جڑے اُمور پر کام کرنے والے ماہر آئی ٹی اسد بیگ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد دنیا میں آن لائن ٹریڈنگ کا وسیع اور رجسٹرڈ نیٹ ورک موجود ہے جہاں لاکھوں لوگ کاروبار کر رہے ہیں۔
’لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ایسی جعلی ٹریڈنگ کمپنیاں بھی کام کر رہی ہوتی ہیں جو شہریوں کو دھوکہ دہی کے ذریعے مالی نقصان پہنچاتی ہیں۔‘
انہوں نے ایسی جعلی ٹریڈنگ کمپنیوں کے کام کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا کہ ’ایسے پلیٹ فارم ابتدائی طور پر صارف کو منافع دیتے ہیں لیکن صارف بڑھنے کے بعد وہ صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی سے کام لینا شروع کر دیتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ایسی کمپنیاں خود کو متعلقہ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ کمپنی ظاہر کر کے صارف کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ ایسے پلیٹ فارم اپنے جعلی کاروبار کو قانونی کور فراہم کرنے کے لیے جعلی این او سی بھی بنا لیتے ہیں۔‘
اس قسم کے جعلی پلیٹ فارمز سے کیسے بچا جا سکتا ہے، اس حوالے سے اسد بیگ نے کہا کہ ’حکومت کی ذمہ داری تو بعد میں آتی ہے پہلے شہریوں کو کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم سے منسلک ہونے سے قبل اُس کے بارے میں تحقیق کرنی چاہیے۔‘

جعلی ٹریڈنگ کمپنیاں شہریوں کو دھوکہ دہی کے ذریعے مالی نقصان پہنچاتی ہیں۔ (فوٹو: نیڈ پکس)

سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ مدثر ناز سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں آن لائن فراڈ کے کیسز میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس معاملے پر حکومتی سطح پر سخت پالیسیوں کے نفاذ اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ کسی آن لائن ٹریڈنگ یا دوسرے پلیٹ فارم کے ساتھ کام کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں کچھ جانچ پڑتال کریں تاہم ان پلیٹ فارمز کے فراڈ سے بچنے کے لیے حکومتی کردار اہم ہے۔‘
مدثر ناز کے مطابق اِن دونوں جعلی آن لائن ٹریڈنگ کمپنیاں جدید طرز پر خود کو استوار کر رہی ہیں اور عام شہری کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ کہ آیا وہ کمپنی جعلی ہے یا نہیں۔ اس لیے حکومت کی طرف سے ایک ریگولیٹر کو ایسے پلیٹ فارمز پر نظر رکھنے کا ٹاسک مفید ہو سکتا ہے۔

شیئر: