Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاروباری مواقع، کمپنیاں بند یا کُھل رہی ہیں؟

شہباز گل کا کہنا ہے کہ جنوری سے اکتوبر تک 15 ہزار نئی کاروباری کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان ترقی کر رہا ہے یا نہیں اس بات کی حقیقت کو جاننا سیاسی اکھاڑے میں ذرا مشکل ہی ہوتا ہے کیونکہ اقتدار حاصل کرنے والی جماعت ہمیشہ یہ بات دہراتی ہے کہ ملک اب درست سمت جانا شروع ہوا ہے جبکہ اپوزیشن ہمیشہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان کے ترجمان شہباز گِل کے ایک بیان سے معاشی حلقوں میں الگ ہی بحث چل نکلی ہے۔
شہباز گِل نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے مطابق رواں برس جنوری سے اکتوبر تک 15 ہزار نئی کاروباری کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں۔ صرف ستمبر کے ایک ماہ کے دوران اس تعداد میں پچھلے سال کی نسبت 69 فیصد اضافہ ہوا۔‘
ان کے بیان میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ ’یہ خوش آئند تبدیلی کاروبار سے متعلق حکومتی قوانین میں نرمی  اور آسان اقساط پر قرضوں کی فراہمی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔‘
 شہباز گِل کے بیان پر لوگوں کا ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
بعض کے خیال میں یہ پوائنٹ سکورنگ ہے جبکہ بعض ان اعدادو شمار کو سراہ رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ ملک میں ابھی کاروبار کے حالات موافق نہیں ہیں۔
عبدالقدوس بدر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ہیں جنہوں نے دو سال پہلے اپنا کاروبار شروع کیا اور اپنی کمپنی رجسٹر کروائی۔
’ہم دو بھائیوں نے اپنے علیحدہ علیحدہ دو کاروبار شروع کیے اور دو کروڑ سے زائد رقم لگائی لیکن ابھی تک ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طریقے سے نظام سیٹ ہو۔ سچی بات پوچھیں تو ابھی تک کوئی سمت دکھائی نہیں دے رہی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کاروبار کرنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ ماحول نئے کاروباری افراد کے لیے موضوع نہیں ہے۔ ہم نے جب شروع کیا تو وراثت کی کچھ زمین بیچ کر نقد رقم اکھٹی کی، دفاتر بنائے کمپنیاں رجسٹر کروائیں۔‘

ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق  کسی بھی طریقے سے کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافہ ہونا ترقی کا پیمانہ نہیں ہو سکتا (فوٹو: انسپلیش)

ایسی کیا مشکلات ہیں جن کا نئے کاروباری افراد کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات کو میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں ہم نے چین سے ایک شپمنٹ منگوائی جس میں درجہ حرارت چیک کرنے والے انفراریڈ آلات تھے جبکہ ایک شپمنٹ اٹلی سے منگوائی جس میں آپریشن تھیٹر کے اندر استعمال ہونے والی ڈریسنگ تھی۔‘
عبدالقدوس بدرکے مطابق پہلے تو رقم کی ادائیگی بینک کے ذریعے کرنے میں اتنا وقت لگا کہ آپ کو اندازہ بھی نہیں ہے۔  تین ہفتوں میں ادائیگی کا عمل مکمل ہوا اور اس کے بعد دو اداروں سے این او سی لینا تھے۔ چین والی شپمنٹ ایک ماہ ایئرپورٹ پر پڑی رہی جبکہ جس ہسپتال کو ڈریسنگ دینا تھی اس نے تین ہفتوں پر آرڈر منسوخ کر دیا۔ ادائیگی کے بعد شپمنٹ رکوانا پڑی جس کا جرمانہ الگ سے ادا کیا اور بیٹھے بیٹھے صرف دو ماہ کے دوران 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوگیا۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ ادراوں میں باہمی روابط اور غیر کاروباری ماحول ہے۔‘

کیا نئی کمپنیاں ترقی کی علامت ہیں؟

سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان وہ ادارہ ہے جو پاکستان میں کارباری کمپنیوں کو رجسڑ کرتا ہے اور کمپنیوں سے متعلق تمام قانونی معاملات دیکھتا ہے۔
ادارے کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ کمپنیوں کی رجسٹریشن میں گذشتہ دو برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال بھی ابھی تک 15 ہزار نئی کمپنیاں رجسٹر ہوچکی ہیں۔
’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنی رجسٹر کروانے کے عمل کو سادہ کیا گیا ہے اور دوسرا اس کو آن لائن کردیا گیا ہے۔ آپ گھر بیٹھے بھی اپنی دستاویزات کے ساتھ کمپنی رجسٹرڈ کروا سکتے ہیں۔ کمپنی کے سی آر او ایس آفس سے بس اتنی ہی معلومات دی جاسکتی ہیں کیونکہ ہمارا کام صرف رجسٹریشن کے ابتدائی اعداد و شمار سے متعلق ہے۔ اس پر اس سے زیادہ کمنٹ نہیں کیا جا سکتا۔‘
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے سابق قانونی مشیر عثمان اعوان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنیوں کی رجسٹریشن ایک بڑا دلچسپ معاملہ ہے۔
’اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اس میں ایک بڑا رول ہمارے وکیلوں کا ہے۔ کارپوریٹ وکیل لوگوں کو اس بات پر اکساتے ہیں کہ وہ کمپنیاں رجسٹرڈ کروائیں جبکہ ایک کمپنی کی رجسٹریشن فیس 40 ہزار سے دو لاکھ روپے تک ہے، اور مڈل کلاس میں بہرحال لوگ جستجو میں تو رہتے ہیں کہ ہر ایک کا اپنا کاروبار ہو تو لوگ کمپنیاں رجسٹر کروا لیتے ہیں۔‘

سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کی رجسٹریشن میں گذشتہ دو برسوں میں اضافہ ہوا ہے (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ پہلے مینوئل تھا اب آن لائن ہے تو تعداد زیادہ ہو رہی ہے، لیکن اس سے یہ تعین بالکل نہیں کیا جا سکتا کہ اصل حالات میں پاکستان میں کاروبار کے لیے فضا بہت اچھی ہو گئی ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی سمجھتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے کمپنیوں کی رجسٹریشن میں اضافہ ہونا ترقی کا پیمانہ نہیں ہو سکتا۔
’آپ اس کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آج کل بینکنگ نظام میں اصلاحات ہو رہی ہیں اور پیسے کو ادھر سے ادھر کرنے میں لوگوں کو کافی مشکلات ہیں، اور لوگ یہ کام کمپنیوں کی رجسٹریشن کروا کے کر رہے ہیں۔ آپ اس بات کو مجموعی معاشی صورت حال سے تبھی جوڑ سکتے ہیں جب آپ کا نیا کاروباری فرد آگے جا رہا ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ نے نئی کمپنیوں سے متعلق سوال کیا ہے ساتھ یہ بھی چھان بین کریں کہ کتنی کمپنیاں بند ہوئی ہیں اور کتنی کمپنیوں نے ملازمین نکالے ہیں۔ اسی طرح ایسی کمپنیوں کو بھی دیکھیں جنہوں نے رجسٹریشن کے بعد ایک سال تک کوئی کاروباری ٹرانزیکشن نہیں کی۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں جب تک تمام معاشی اعشاریے درست نہیں ہوتے یہ باتیں صرف بیانوں کی حد تک ہیں۔‘

شیئر: