Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نغمہ نگار گلزار جنہوں نے ’ہمیشہ زندہ رہنے والا سنیما‘ تخلیق کیا

گلزار 18 اگست 1936 کو دینہ کے اروڑہ سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی
اس کہانی کا آغاز ممبئی کے ایک موٹر گیراج سے ہوا جہاں نوجوان سمپورن سنگھ غمِ روزگار کے لیے گاڑیوں پر رنگ کیا کرتا۔ فرصت ملتی تو کبھی کرشن چندر تو کبھی راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں سے زندگی کے رنگ کشید کرتا، نثر سے جی اُکتا جاتا تو شاعری پڑھنے لگتا اور کبھی کبھی تو جی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کچھ لکھ بھی لیتا۔
یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب انجمنِ ترقی پسند مصنفین کا اتوار کو ہونے والا ہفتہ وار اجلاس ادب سے شغف رکھنے والے نوجوانوں کی ادبی آبیاری کرنے کا اہم ترین ذریعہ تھا۔ وہ اکثر انجمن کے اجلاس میں چلا جاتا اور جب کرشن چندر کے پڑھے گئے افسانے پر ظؔ انصاری تنقید کرتے ہوئے کہتے، ’کرشن دیکھو، اس میں ادیب جھلکتا ہے، ادیب بولتا ہے، کردار نہیں بولتا۔‘
تو نوجوان سمپورن حیران ہوتا کہ کرشن چندر پر بھی کوئی تنقید کر سکتا ہے۔ ہفتہ بھر کام کرنے کے بعد انجمن کا یہ اجلاس نوجوان ذہنوں کے لیے روزمرہ کے معمول سے فرار کا ایک ذریعہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کی ادبی وفکری آبیاری بھی ہوتی۔ ظاہر ہے اس ماحول میں نوجوان سمپورن کی ادب میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ وہ لفظوں سے کھیلنے لگا ایسے ہی جیسے گاڑی کو رنگتے ہوئے دو مختلف رنگوں سے ایک اور رنگ تخلیق کیا کرتا تھا۔ 
یہ کہانی دینہ کے سمپورن سنگھ کالڑا کی ہے جسے دنیا گلزار کے نام سے جانتی ہے۔
وہ آج ہی کے روز 18 اگست 1936 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر جہلم کے نواحی قصبے دینہ کے ایک اروڑہ سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مکھن سنگھ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ ذکر اس سے قبل بھی کسی مضمون میں ہو چکا ہے کہ اس عہد میں پنجاب کے علمی و فکر منظر نامے پر اروڑہ اور کھتری نمایاں تھے۔ 
تقسیم کے بعد سمپورن کی عمر محض آٹھ برس تھی مگر ہجرت کا زخم کبھی مندمل نہ ہو سکا جس کا اظہار وہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ وہ سال 2013 میں پاکستان آئے تو اپنے آبائی شہر دینہ بھی گئے۔ 

گلزار ممبئی کے ایک موٹر گیراج میں گاڑیوں کو رنگ کرنے کا کام کرتے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے اس بارے میں ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’میں آٹھ سال کا تھا جب میں نے اپنے والد کے ساتھ پاکستان چھوڑا۔ گزرے 70 برسوں میں صرف ایک بار سال 2004 میں اپنے کرم فرما احمد ندیم قاسمی کی عیادت کے لیے چار روز کے ایمرجنسی ویزا پر لاہور جانے کا موقع ملا کیوں کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ لیکن طویل عرصہ سے اپنی جنم بھومی دینہ جانے کی حسرت پوری نہ ہو سکی۔‘
وہ پاکستان آئے تو مشہور ہدایت کار وشال بھردواج اور ان کی اہلیہ اور مشہور گلوکارہ ریکھا بھردواج بھی ان کے ہم سفر تھے۔ 
وہ اپنے اس دورے کے دوران دینہ گئے۔ انہوں نے اپنا آبائی گھر دیکھا، ریلوے سٹیشن گئے۔ مقامی لوگوں میں گھل مل گئے، یہ وہ دینہ ہی ہے جس کے بارے میں گلزار نے کہا تھا،
ذکر جہلم کا ہے، بات ہے دینہ کی
چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی 
ہجرت کے بعد یہ خاندان امرتسر آ کر آباد ہوا۔ کچھ عرصہ بعد گلزار کے بڑے بھائی ممبئی منتقل ہو گئے۔ گلزار اُن کی مدد کے لیے ممبئی چلے آئے، بھائی کے ساتھ بن نہ سکی تو اپنی راہ لی۔ گاڑیوں کو رنگتے رنگتے سپنے دیکھنے لگے اور پھر اُن کی تعبیر بھی پانے میں کامیاب رہے۔
سمپورن کی طرح شیلندر نے بھی ہجرت کا غم سہا تھا۔ دونوں میں جلد دوستی ہو گئی۔ گلزار کی لیجنڈ موسیقار، کہانی کار اور گیت نگار سلیل چوہدری سے بھی ان دنوں ہی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ وہ سلیل چوہدری ہی ہیں جنہوں نے عظیم بنگالی ہدایت کار بمل رائے کی فلم ’دو بیگھہ زمین‘ کی ناصرف کہانی لکھی تھی بلکہ اس کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ 
’دو بیگھہ زمین‘ انڈین سنیما کی اولین حقیقت پسندانہ رجحانات کی حامل فلم ہے جس میں راولپنڈی کے ہی بلراج ساہنی نے شمبھو کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔
بمل رائے کو سمپورن کا موٹر گیراج میں کام کرنا اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے نوجوان سمپورن سے کہا کہ وہ ہدایت کاری کی جانب آ جائیں مگر سمپورن کے لیے اس وقت یہ تصور کرنا بھی مشکل تھا۔ وہ تو صرف اور صرف ادب ہی تخلیق کرنا چاہتے تھے جس پر بمل رائے نے ان کو اپنے اسسٹنٹ کے طور پر رکھ لیا۔ 

گلزار 2013 میں پاکستان آئے تو اپنے آبائی شہر دینہ بھی گئے۔ فوٹو: فیس بک ریڈیو پاکستان

بات شیلندر کی ہو رہی تھی جن کی حوصلہ افزائی پر ہی نوجوان سمپورن نے گیت نگاری شروع کی۔ وہ مگر ابتدائی فلموں میں کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جن میں یادگار فلم ’کابلی والا‘ بھی شامل ہے۔ یہ بلراج ساہنی کی یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور اس کے گیت نگاروں میں پریم دھون بھی شامل تھے جو تقسیم سے قبل عظیم موسیقار خواجہ خورشید انور کے معاون رہ چکے تھے۔ 
سال 1963میں ریلیز ہونے والی بمل رائے کی یادگار فلم ’بندنی‘ کے لیے گلزار کا لکھا گیت ’مورا گورا انگ لئی رے‘ سراہا گیا جس کی موسیقی عظیم موسیقار ایس ڈی برمن نے دی تھی جب کہ لتا جی نے اپنی آواز دی تھی۔ یہ بمل رائے کی آخری فلم تھی تو ہندی سنیما کے مہان گیت نگار، کہانی کار اور ہدایت کار گلزار کو اسی فلم کے ذریعے نئی پہچان ملی تھی اور موٹر مکینک سمپورن سنگھ کالڑا اب گلزار کے کے نام سے جانا جانے لگا تھا جن کی جادوئی شہرت کا سفر شروع ہوا سال 1969 میں ریلیز ہوئی فلم’خاموشی‘ سے۔ انہوں نے اس فلم کے لیے گیت ہی نہیں لکھے تھے بلکہ اس فلم کے مکالمے بھی گلزار نے ہی لکھے تھے۔
اس فلم کا گیت، ’ہم نے دیکھی ہے اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو، ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو‘ نے گلزار کو اس عہد کے صف اول کے گیت نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
بمل رائے کے بعد گلزار رشی کیش مکھرجی کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے اور ان کی فلموں آشیرواد، آنند اور گڈی جیسی فلموں کے سکرین پلے اور گیت لکھے۔ ان کو اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ بھی ’آنند‘ کے لیے ہی ملا تھا جسے وصول کرنا ان کے لیے آسان ثابت نہیں ہوا اور ان کے لیے سٹیج پر پہنچنا کسی معرکے کو سرانجام دینے سے کم نہ تھا۔ 
’خاموشی‘ میں اگرچہ اپنے عہد کے سپرسٹارز راجیش کھنہ اور دھرمیندر نظر آئے مگر یہ فلم وحیدہ رحمان کی بہترین اداکاری اور اپنی موسیقی کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔ 
سال 1971 میں گلزار کے فنی سفر نے ایک نیا رُخ اختیار کیا جب فلم ’میرے اپنے‘ ریلیز ہوئی۔ یہ گلزار کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی۔ ملکۂ جذبات مینا کماری، ونود کھنہ اور شتروگھن سنہا بڑے پردے پر نظر آئے۔ 
مینا کماری کی یہ آخری فلموں میں سے ایک تھی جس کی ریلیز کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ جگر کے عارضے کے باعث چل بسی تھیں جب کہ ونود اور شتروگھن سنہا کو اس فلم کے ذریعے بڑا بریک ملا تھا۔

پاکستان سے ہجرت کے بعد گلزار کا خاندان امرتسر میں آباد ہوا۔ فوٹو: فیس بک ریڈیو پاکستان

گلزار نے اس فلم میں مینا کماری کو شامل کرنے کے حوالے سے بھارتی ویب سائٹ دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’فلم بڑی حد تک ویسی ہی بنی جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔ ہم مینا جی پر گیت ’روز اکیلی آئے، روز اکیلی جائے۔ چاند کٹورا لیے بھکارن رات‘ نہیں فلما سکے۔ ان کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ سیٹ پر آ پاتیں۔
میرے علم کے مطابق، ’میرے اپنے‘ وہ آخری فلم تھی جس میں انہوں نے کام کیا۔ وہ نوجوان اداکاروں سے اکثر از راہِ مذاق کہا کرتیں، ’ہدایت کار تم لوگوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ تم لوگ کم از کم اس سے مہ نوشی کی دعوت رکھنے کا تو کہہ ہی سکتے ہو۔‘ افسوس کہ اس دعوت کا اہتمام نہیں ہو سکا کیوں کہ وہ چل بسیں۔‘
’میرے اپنے‘ میں گلزار کی وہ فکری تربیت نظر آئی جس کی آبیاری ترقی پسند سیاست نے کی تھی۔ وہ اگرچہ کبھی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رُکن نہیں رہے مگر ان کے دوستوں میں سے بہت سے ترقی پسند سیاست سے وابستہ تھے۔
اس فلم میں بین السطور ’تنہائی‘ کے کرب کو بھی بیان کیا گیا تھا اور یہ تپن سنہا کی نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے والی بنگالی فلم کا ری میک تھی۔ تپن سہنا کا شمار ستیہ جیت رے، رتوک گھٹک اور مرینل سین جیسے ہدایت کاروں کی فہرست میں کیا جاتا ہے اور دلیپ کمار کی واحد بنگالی فلم ’ساگینا مہتو‘ کے ہدایت کار بھی تپن سنہا ہی تھے۔ 
یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ شتروگھن سنہا اس فلم کے پریمیر میں شریک نہیں ہوئے تھے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ گلزار نے اس فلم میں ونود کھنہ کو ان پر ترجیح دی تھی۔ 
سال 1972 میں فلم ’پریچے‘ ریلیز ہوئی جس میں گلزار نے فلم کی ہدایت کاری تو کی ہی تھی بلکہ اس کے مکالمے اور گیت بھی لکھے تھے جب کہ فلم کا سکرین پلے بھی گلزار نے ہی لکھا تھا۔ فلم کی کہانی ایک بنگالی ناول سے ماخوذ تھی جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ گلزار کے تخلیقی سفر میں بنگالی ادب کا اہم کردار رہا۔
’پریچے‘ میں اگرچہ جتندر اور جیابہادری نے مرکزی کردار ادا کیے تھے مگر اس فلم میں ونود کھنہ اور سنجیو کپور بھی مختصر کردار میں نظر آئے، اور اسی فلم سے گلزار اور سنجیو کمار میں ایک ایسا یادگار تخلیقی رشتہ قائم ہوا جو اگلے کئی برسوں تک برقرار رہا۔ اس فلم کے یوں تو سب گیت ہی یادگار رہے مگر یہ گیت تو اَمر ہو چکا ہے:
’مسافر ہوں یارو
نہ گھر ہے نہ ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے
بس چلتے جانا ہے‘

گلزار کی ہدایتکاری میں بننے والی پہلی فلم ’میرے اپنے‘ تھی۔ فوٹو: سکرول

اور اسی سال گلزار کی ایک اور یادگار فلم ’کوشش‘ ریلیز ہوئی جس میں جیا بہادری کے ساتھ مرکزی کردار میں نظر آئے سنجیو کمار جنہوں نے اس فلم کے لیے بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ حاصل کیا جب کہ بہترین کہانی اور ہدایت کاری کے فلم فیئر ایوارڈ کے لیے گلزار کو نامزد کیا گیا۔ اس فلم کی کہانی ایک گونگے اور بہرے جوڑے اور اس کو پیش آنے والی مشکلات کے گرد گھومتی ہے۔
گلزار اس وقت تک فلمی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام بن چکے تھے جب ان کی زندگی میں راکھی آئیں۔ بنگالی حسن نے جادو کا کام کیا اور دونوں اپریل 1973 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ بندھن مگر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ 
گلزار نے شادی سے قبل راکھی کو سکول کے زمانے کی اپنی اس رجعت پسند سوچ کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا کہ راکھی کو شادی کے بعد اداکاری ترک کرنا ہو گی کیوں کہ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ شادی شدہ عورتوں کے لیے فلموں میں کام کرنا مناسب نہیں اور ظاہر ہے یہ اصول راکھی پر بھی لاگو ہوتا تھا۔ 
راکھی نے اگرچہ اس شرط پر سرِتسلیم خم کیا تھا مگر وہ پرامید تھیں کہ وہ گلزار کی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں کام کرنے میں کامیاب رہیں گی مگر شومئی قسمت گلزار نے ان کو اپنی کسی فلم میں کام کرنے کی پیشکش نہیں کی جب کہ پروڈیوسرز ان سے تاریخ لینے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ اور یوں ان دونوں کے راستے جدا ہو گئے۔ ان کی بیٹی میگھنا گلزار معروف ہدایت کارہ ہیں۔
گلزار اور راکھی کی پانچ سال تک چلنے والی محبت کے بعد ہوئی شادی صرف ایک سال ہی چل سکی لیکن علیحدگی کے بعد بھی ان دونوں کی ایک دوسرے سے محبت ختم نہیں ہوئی۔ 
گلزار نے دوسری شادی کی اور نہ ریکھا دوبارہ شادی کے بندھن میں بندھیں۔ راکھی نے سٹارڈسٹ میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’ہم بہت سے شادی شدہ جوڑوں سے زیادہ ہم آہنگی سے رہ رہے ہیں۔ گلزار اور میں ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔‘
سال 1975 میں گلزار کی دو یادگار فلمیں ’آندھی‘ اور ’موسم‘ ریلیز ہوئیں۔ سنجیو کمار اور سچترا سین کی فلم ’آندھی‘ کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ انڈیا کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی زندگی پر مبنی ہے۔ یہ فلم گلزار کی بہترین ہدایت کاری، آر ڈی برمن کی موسیقی، کشور اور لتا کی سحر انگیز گائیکی اور سب سے بڑھ کر سنجیو کمار اور سچترا سین کی اداکاری کے باعث یاد رکھی جائے گی۔ یہ سچترا سین کی آخری ہندی فلم تھی، جن کا شمار بنگالی سنیما کی تاریخ کی مہان اداکارائوں میں کیا جاتا ہے۔ بالی وڈ اداکارائیں ریا سین اور رائما سین اُن کی نواسیاں ہیں۔

گلزار کی فلم ’ماچس‘ اپنے گیتوں کی وجہ سے بے حد مشہور ہوئی۔ فوٹو: سکرول

خیال رہے کہ ’آندھی‘ کی ریلیز کے کچھ ہی مہینوں بعد وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی جس کے باعث فلم پر بھی پابندی لگ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فلم کا اندرا گاندھی کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس فلم میں ایک خاتون سیاست دان کے سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے دی گئی قربانیوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ یہ بطور ہدایت کار گلزار کی چند یادگار فلموں میں سے ایک ہے جس کے گیت
’تیرے بنا زندگی سے کوئی 
شکوہ تو نہیں
شکوہ نہیں
تیرے بنا زندگی بھی لیکن
زندگی تو نہیں
زندگی نہیں‘،
’تم آ گئے ہو
نور آ گیا ہے
نہیں تو
چراغوں سے لو جا رہی تھی‘
یا  
’اس موڑ سے جاتے ہیں
کچھ سست قدم رستے
کچھ تیز قدم راہیں‘
دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔
یہ ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ فلم کے مرکزی کردار آرتی دیوی کے لیے پہلے وجنتی مالا کو پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے اندرا گاندھی کے ساتھ مماثلت کے باعث یہ کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے بعدازاں سال 2011 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ‘آندھی‘ میں کام نہ کرنے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ’میں اندرا کو اس حد تک پسند کرتی تھی کہ جب مجھے اس کردار کی پیشکش ہوئی تو میں نے صاف انکار کر دیا۔‘
 گلزار کی اسی برس ایک اور یادگار فلم ’موسم‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کے گیت، 
’دل ڈھونڈتا ہے
پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصورِ جاناں کیے ہوئے،‘
اور
’رُکے رُکے سے قدم
رُک کے بار بار چلے
قرار لے کے 
تیرے در سے بے قرار چلے‘
ہندی فلمی سنگیت میں سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ گلزار نے اپنے ایک انٹرویو میں ’دل ڈھونڈتا ہے‘ کو ان کے چند یادگار ترین گیتوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ ان گیتوں کے لیے موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی جو اسی برس چل بسے تھے۔

’سلم ڈاگ ملینئر‘ کے گیت گلزار نے لکھے جن پر گریمی اور آسکر ایوارڈ ملے۔ فوٹو: سکرول

گلزار تجربات کرتے رہے۔ سال 1982 میں ریلیز ہونے والی فلم ’انگور‘ مزاح سے بھرپور تھی تو اسی برس ریلیز ہونے والی فلم ’نمکین‘ میں گلزار نے اپنیی فلم ’کتاب‘ کی طرح ایک اہم سماجی مدعے کو پیش کیا تھا۔ ’انگور‘ اور ’نمکین‘ میں سنجیو کمار تو تھے ہی مگر یہ تمام فلمیں گلزار پر بنگالی ادب کے گہرے اثر کا اشارہ بھی دیتی ہیں۔ 
گلزار کی سال 1987 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اجازت‘ ہو یا سال 1991 میں ریلیز ہونے والی فلم ’لیکن‘، ان فلموں کی کہانی بھی بنگالی ادب سے ہی مستعار لی گئی تھی۔ انہوں نے اس بارے میں انڈین ٹیلی ویژن چینل راجیہ سبھا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’بنگالی سے ویسے بھی بڑی   Attachmentتھی میری۔ سکول کے زمانے سے ہی ٹیگور میرے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھے تو ٹیگور کے تراجم بہت پڑھے تھے۔ ایک خواہش تھی کہ ٹیگور کو اب اوریجنل میں پڑھا جائے تو اس وجہ سے بنگلہ سیکھی جس کے باعث مجھے وہ گرائونڈ مل گئی جسے کہہ سکتے ہیں کہ ادب کے ساتھ جڑا ہوا سنیما تھا۔‘
فلم ’اجازت‘ گلزار کی سابقہ فلموں کا ہی تسلسل تھی جس میں رومان تھا، جدائی تھی، کسک تھی جسے آر ڈی برمن کی موسیقی، گلزار کی شاعری اور آشا بھوسلے کی آواز نے یادگار بنا دیا جیسا کہ 
’میرا کچھ ساماں
تمہارے پاس پڑا ہے
او، ساون کے کچھ کچھ بھیگے بھیگے دن رکھے ہیں
اور میرے اِک خط میں لپٹی
راکھ پڑی ہے
وہ راکھ بھجا دو
میرا وہ ساماں لوٹا دو‘،
’قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے
بہنے دو
پیاسی ہوں میں، پیاسی رہنے دو‘
اور
’چھوٹی سی کہانی سے
بارشوں کے پانی سے
ساری وادی بھر گئی‘
اُس تخلیقی اظہار کا تسلسل ہیں جو صرف گلزار کا ہی خاصا ہیں۔

گلزار کی فلموں میں رومان، سماجی مسائل کا بیاں ہے اور سیاست کا ذکر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے اس دوران انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل دور درشن کے لیے اردو زبان کے کلاسیکی شاعر مرزا اسداللہ خان غالب پر ڈرامہ سیریل بنائی جس میں مرکزی کردار نصیرالدین شاہ نے ادا کیا۔ اس ڈرامے کو کلٹ کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور اس میں شامل یہ نظم گلزار کا اردو کے عظیم شاعر کو ایک بے مثل خراجِ تحسین ہے:
بلی ماراں کے محلے کی وہ پیچیدہ دلیلوں کی سی گلیاں 
سامنے ٹال کی نکڑ پہ بٹیروں کے قصیدے 
گڑگڑاتی ہوئی پان کی پیکوں میں وہ داد وہ واہ وا 
چند دروازوں پہ لٹکے ہوئے بوسیدہ سے کچھ ٹاٹ کے پردے 
ایک بکری کے ممیانے کی آواز 
اور دھندلائی ہوئی شام کے بے نور اندھیرے سائے 
ایسے دیواروں سے منہ جوڑ کے چلتے ہیں یہاں 
چوڑی والان کے کٹرے کی بڑی بی جیسے 
اپنی بجھتی ہوئی آنکھوں سے دروازے ٹٹولے 
اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے 
ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے 
ایک قرآنِ سخن کا صفحہ کھلتا ہے 
اسد اللہؔ خاں غالبؔ کا پتا ملتا ہے 
اور سال 1996 میں فلم ’ماچس‘ ریلیز ہوئی۔ یہ گلزار کی بطور ہدایت کار آخری دور کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ہے جو اپنی غیرروایتی پیشکش اور موضوع کی ندرت کے باعث ہمیشہ یاد رکھی جائے گا۔ فلم میں خالصتان تحریک کے پس منظر میں نوجوانوں کا نوحہ بیان کیا گیا ہے جو ایک متشدد تحریک میں شامل ہوتے ہیں اور پھر ماچس کی تیلیوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ 
یہ فلم اپنے گیتوں’چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘، ’چپہ چپہ چرخہ چلے،‘ یا ’پانی پانی رے‘ کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ فلم کی موسیقی اس وقت نوآموز موسیقار وشال بھردواج نے دی تھی جو آنے والے برسوں میں ایک ہدایت کار اور پروڈیوسر کے طور پر اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہے۔ ’مقبول‘، ’اومکارہ‘ اور ’حیدر‘ ان کی یادگار فلموں میں شامل ہیں، جن کے گیت گلزار نے ہی لکھے۔
گلزار کی بطور ہدایت کار آخری فلم ’ہو تو تو‘ اگرچہ باکس آفس پر تو کامیاب نہ ہو سکی مگر یہ ناقدین کی توجہ حاصل کرنے میں ضرور کامیاب رہی۔

تقسیم ہند کے وقت گلزار آٹھ برس کے تھے جب انہوں نے ہجرت کی۔ فوٹو: اے ایف پی

گلزار نے اگرچہ اس کے بعد ہدایت کاری سے کنارہ کشی اختیار کر لی مگر وہ فلموں کے لیے گیت لکھتے رہے۔ سال 2008 میں ’سلم ڈاگ ملینئر‘ کے لیے لکھے گیت ’جے ہو‘ کے لیے آسکر اور گریمی ایوارڈ حاصل کیے۔ وہ گیت نگاری پر 13جب کہ مکالمہ نگاری پر چار فلم فیئر ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بھی ایک منفرد ریکارڈ ہے کہ وہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے 51 بار  نامزد ہوئے، چھ بار نیشنل ایوارڈ حاصل کیا، جب کہ انڈین سنیما کا سب سے بڑا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور ادب کے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔ ان کا یہ سفر رکا نہیں اور سال 2023 میں وشال بھردواج کی فلم ’خفیہ‘ اور اپنی بیٹی میگھنا گلزار کی فلم ’سام بہادر ‘ کے گیت گلزار ہی نے لکھے تھے۔ 
گلزار ہمیشہ سفید کپڑوں میں ہی نظر آتے ہیں اور کرکٹ کے شوقین ہیں۔ ان کے تو خوابوں میں بھی کرکٹ چل رہی ہوتی ہے۔ ڈرائیونگ کا شوق ہے تو گاڑی پر پورا انڈیا گھوم چکے ہیں اور قلم اور کاغذ ہو تو آج بھی کچھ نیا، کچھ منفرد تخلیق کرنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے جنہیں ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل ہو چکی ہے اور وہ اپنا پہلا تعارف ایک ادیب کے طور پر ہی کروانا پسند کرتے ہیں۔
گلزار کی امیجری، لفطوں کو برتنے کا سلیقہ، نئے اور منفرد استعاروں کے استعمال میں مہارت اور خیال کی ندرت ان کی شاعری کو ان کے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے اور ان کی فلموں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔
گلزار کے فن میں جمود نہیں ہے اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ سنیما کو اپنی زبان، اپنا ادب تخلیق کرنا چاہیے۔ ان کی فلموں میں رومان ہے، سماجی مسائل کا بیاں ہے، سیاست کا ذکر ہے اور سب سے بڑھ کر ادبی رنگ نمایاں ہے جیسا کہ انہوں نے کہانی کہنے کا اپنا مختلف انداز اختیار کیا۔
انہوں نے منی کول، کمار شاہانی ،ایم ایس ستھیو، شیام بینیگل یا گووند نہلانی کی طرح کا متوازی سنیما تو تخلیق نہیں کیا اور نہ ہی مسالہ فلمیں بنائیں بلکہ درمیانی راہ نکالی اور یوں اپنے مضبوط اور منفرد کرافٹ کی وجہ سے ایسا سنیما تخلیق کرنے میں کامیاب رہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔

شیئر: