Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوست ممالک کی یقین دہانی، پاکستان آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر قرض کے لیے پُرامید

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس 28 اگست کو منعقد ہو رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے اعلٰی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ بین الااقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جلد ہی سات ارب ڈالر قرض کی منظوری دے گا کیونکہ پاکستان نے اس مقصد کے لیے عائد کی گئی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور حال ہی میں تین دوست ممالک نے اس معاملے پر حمایت کے لیے بیرونی فنانسنگ کے لیے درکار یقین دہانی بھی کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس 28 اگست کو منعقد ہو رہا ہے اور اس کے لیے جاری کیے گئے ایجنڈے پر فی الحال پاکستان کے قرض پروگرام کی منظوری شامل نہیں ہے۔
تاہم پاکستان کی وزارت خزانہ کے اعلٰی حکام نے پیر کو اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس سے قبل دوست ممالک نے پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کے معاملے پر یقین دہانی کروا دی ہے، اس لیے وہ پرامید ہیں کہ رواں ماہ کے دوران ہی آئی ایم ایف بورڈ پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دے گا۔‘
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 12 جولائی کو سٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس وقت امکان ظاہر کیا تھا کہ اگست میں آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے سات ارب ڈالر قرض پروگرام کی پہلی قسط منظور ہو جائے گی۔

دوست ممالک کے قرضے کی تین سال تک توسیع

وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کر دیا ہے کہ چین اور دو خلیجی دوست ممالک نے بیرونی فنانسنگ کی مطلوبہ یقین دہانی فراہم کر دی ہے اور اب سات ارب ڈالر قرض کے پروگرام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
وزارت خزانہ کے مطابق دوست ممالک نے قرض کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی یقین دہانی کروائی ہے۔ یہ توسیع بنیادی طور پر تین سال کے لیے ہے تاہم اس کے لیے ہر سال نئی درخواست دینی پڑے گی۔
وزارت خزانہ کے حکام نے پاکستان کی بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے بتایا کہ رواں سال دوست ممالک کو 12 ارب ڈالرکے دوطرفہ قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جن میں دو خلیجی ممالک کے آٹھ ارب ڈالر اور چین کا چار ارب ڈالر کا قرض واجب الادا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان تین سال میں تین سے پانچ ارب ڈالر تک کے فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ پاکستان نے چین سے پاور پلانٹس کے لیے بھی قرض میں ریلیف کی درخواست کی ہے۔‘

آئی ایم ایف قرضے کی دیگر شرائط

عالمی مالیاتی ادارے سے نئے قرض پروگرام کے معاملے پر پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر رکھی ہیں جس کی روشنی میں ہی آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا۔

بجٹ 2024 میں وفاقی حکومت نے نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اُنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے 130 کھرب روپے کا ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کیا ہے جو گذشتہ برس کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 3.6 فیصد شرحِ نمو کا ہدف بھی مقرر کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی دیگر مطالبات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ٹیکس چھوٹ واپس لینے، برآمد کنندگان کے لیے کارپوریٹ ٹیکس میں اضافے اور ذاتی انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کے فیصلے کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ بجٹ 2024 میں وفاقی حکومت نے نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے اُنہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کے حصول کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے اور بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے جیسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
تاہم اس کے باوجود آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کے 28 اگست کو ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں تاحال پاکستان کے قرضے کا معاملہ شامل نہیں کیا گیا، اور تفصیلات کے مطابق اس اجلاس کا مقصد گنی بساؤ کے پروگرام کے چھٹے جائزے کی منظوری ہے۔

’پاکستان آئی ایم ایف کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے‘

آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس کے ایجنڈے میں پاکستان کا نام شامل نہ ہونے کے معاملے پر عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے ماہر معاشی امور ہارون شریف سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 3.6 فیصد شرحِ نمو کا ہدف بھی مقرر کر رکھا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’جیو پالیٹکس میں آئی ایم ایف اور امریکہ پاکستان کی بجائے دیگر ممالک کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سے مصر آئی ایم ایف کی ترجیحات میں شامل ہے۔‘
ہارون شریف کے مطابق آئی ایم ایف نے سٹاف لیول معاہدے کے لیے پاکستان سے بنیادی تمام مطالبات پورے کروا لیے ہیں۔ اگر ایگزیکٹیو بورڈ سے قبل دوست ممالک کی یقین دہانیاں بھی مل گئی ہیں تو پھر پاکستان کو رواں ماہ نہ سہی تو آئندہ ماہ ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کر لیا جائے گا۔
پاکستان میں سیاسی استحکام کے آئی ایم ایف پروگرام سے تعلق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف نے سٹاف لیول معاہدے میں پاکستان کے اندونی استحکام پر بھی تبصرہ کیا تھا۔ یقین ہے کہ اس وقت آئی ایم ایف اس پہلو کا بھی بغور جائزہ لے رہا ہو گا۔ اگر وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان بجٹ کے معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہوا تو اس سے آئی ایم پروگرام کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

’عالمی مالیاتی ادارے میرٹ کے بجائے سیاسی فیصلہ کرتے ہیں‘

دوسری جانب ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ تو مطالبات کے پورا ہونے کی صورت میں ہوتا ہے تاہم ایگزیکٹیو بورڈ امریکی اثرورسوخ ہونے کی وجہ میرٹ کے بجائے سیاسی فیصلہ کرتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پر عمل درآمد کر چُکا ہے مگر پھر بھی ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس سے منظوری کے لیے دیگر چینلز بھی بروئے کار لانے ہوں گے۔

وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق پاکستان نے چین سے پاور پلانٹس کے لیے بھی قرض میں ریلیف کی درخواست کی ہے۔ (فوٹو: زِن ہوا)

ڈاکٹر فرخ سلیم نے وزارت خزانہ کے حکام کے اس دعوے کو درست قرار دیا کہ ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس کے ایجنڈے میں پاکستان کا نام شامل نہ ہونے کے باوجود اس اجلاس سے پہلے کسی بھی وقت پاکستان کا نام شامل کر سکتا ہے۔

شیئر: