سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ انڈیا کے لیے ’سفارتی دردِ سر‘
سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ انڈیا کے لیے ’سفارتی دردِ سر‘
پیر 2 ستمبر 2024 11:00
طلبہ کے شدید احتجاجی مظاہرے کے بعد شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
تجزیہ کاروں کے مطابق تقریباً ایک ماہ قبل طالبعلموں کے احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے فرار ہونے والی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد انڈیا میں اپنے میزبانوں کے لیے سفارتی سر درد بن گئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگست میں شیخ حسینہ کے آمرانہ دور کا خاتمہ اس وقت ہوا جب مظاہرین نے ڈھاکہ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کی جانب مارچ کیا۔
بنگلہ دیشی طلبہ جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی تھی، مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ انڈیا سے واپس لوٹیں تاکہ ان پر مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔ ملک سے فرار ہونے سے قبل انڈیا شیخ حسینہ واجد کا سب سے بڑا حامی تھا۔
تاہم 76 برس کی شیخ حسینہ کو واپس بھیجنے سے جنوبی ایشیا میں انڈیا کی ساکھ کمزور ہونے کا خدشہ ہے جہاں وہ چین کے اثر و رسوخ کے خلاف سخت مقابلہ کر رہا ہے۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کیئن کا کہنا ہے کہ انڈیا انہیں بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
حوالگی سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ ’پیغام جو خطے کے دیگر رہنماؤں کو جائے گا جو نئی دہلی کے قریب ہیں، زیادہ مثبت نہیں ہو گا۔۔۔ کہ انڈیا آپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔‘
’اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘
نئی دہلی نے گزشتہ سال مالدیپ میں اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کو ایک حریف سے ہارتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے سے انڈیا خطے میں اپنے قریبی اتحادی سے محروم ہو گیا۔
وہ لوگ جو شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران کی جانے والی زیادتیوں سے متاثر ہوئے تھے، وہ انڈیا مخالف ہیں۔
مودی نے 84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں آنے والی حکومت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
تاہم مودی جنہوں نے ہندو عقیدے کی حمایت کو اپنے دور اقتدار کا ایک اہم حصہ بنایا ہے، نے یونس کی انتظامیہ سے بنگلہ دیش کی ہندو مذہبی اقلیت کے تحفظ کے لیے بھی بار بار زور دیا ہے۔
حسینہ کی عوامی لیگ کو بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی بہ نسبت ہندو اقلیت کو تحفظ دینے والی جماعت سمجھا جاتا تھا۔
مودی نے 17ویں صدی کے لال قلعے میں سالانہ یوم آزادی کے خطاب میں کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے ہندو خطرے میں ہیں اور بعد میں یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ بھی اٹھایا۔
شیخ حسینہ کے جانے کے بعد کچھ بنگلہ دیشی ہندوؤں اور ہندو مندروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی طلبہ رہنماؤں اور عبوری حکومت نے مذمت کی تھی۔
بی این پی کے ایک سینیئر رہنما فخر الاسلام عالمگیر ان ہزاروں ارکان میں سے ایک ہیں جو شیخ حیسنہ کے دور حکومت میں گرفتار کیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کے لوگ انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اپنے مفادات کی قیمت پر نہیں۔‘
’مطلق العنان کو پناہ دینا‘
ایسے ہی عدم اعتماد کی فضا میں اگست میں دونوں ممالک میں جب تباہ کن سیلاب آیا تو کچھ بنگلہ دیشیوں نے ہلاکتوں کا ذمہ دار انڈیا کو ٹھہرایا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سرکاری سطح پر نئی دہلی کے ساتھ شیخ حسینہ کے انڈیا میں پناہ لینے کا مسئلہ نہیں اٹھایا ہے لیکن ڈھاکہ نے ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے اور انہیں آگے کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ ہوا ہے جس پر پہلی مرتبہ 2013 میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت ان کو واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
تاہم معاہدے کی ایک شق کہتی ہے کہ اگر جرم ’سیاسی شخصیت‘ کا ہو تو حوالے کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش میں انڈیا کے سابق سفیر پِنک رانجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت کو یہ احساس ہو گا کہ شیخ حسینہ کے انڈیا میں قیام کو مسئلہ بنانے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔