Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حسینہ واجد اور ان کی حکومت کی چھ اعلٰی شخصیات کے خلاف دکاندار کے قتل کا مقدمہ

مقدمے میں حسینہ واجد کے وزیر داخلہ، سابق پولیس انسپکٹر جنرل اور ان کی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی نامزد ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے منگل کو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کی چھ اعلٰی شخصیات کے خلاف گذشتہ ماہ بدامنی کے دوران پولیس کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 76 برس کی حسینہ واجد ایک ہفتہ قبل ڈھاکہ میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران ملک چھوڑ کر انڈیا چلی گئی تھیں جہاں وہ اب بھی مقیم ہیں۔
شیخ حسینہ واجد کی اقتدار سے رخصتی تک کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے پرتشدد مظاہروں میں 450 سے زائد افراد کی جان چلی گئی تھی۔
ایک مقامی شہری کی جانب سے وکیل مامون میاں نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد اور دیگر چھ افراد کے خلاف قتل کا یہ مقدمہ درج کروایا ہے۔
جن شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا ہے ان میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان، عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری عبیدالقادر اور سابق پولیس انسپکٹر جنرل چودھری عبداللہ المامون شامل ہیں۔
اس مقدمے میں حسینہ واجد کی حکومت کی طرف سے مقرر کیے گئے چار اعلٰی پولیس افسران کے نام بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے ہیں۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن کورٹ نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرے، جو بنگلہ دیشی قانون کے تحت مجرمانہ تفتیش کا پہلا مرحلہ ہے۔
مقدمے میں ایک گروسری سٹور کے مالک کی موت کا ذمہ دار ان ساتوں شخصیات کو قرار دیا گیا ہے جسے 19 جولائی کو پولیس کی جانب سے پُرتشدد مظاہروں کو دبانے کے لیے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
’ڈیلی سٹار‘ اخبار نے اطلاع دی ہے کہ یہ مقدمہ اس محلے کے رہائشی امیر حمزہ شاتل کی جانب سے درج کرایا گیا جہاں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا اور وہ متاثرہ شخص کے ’خیر خواہ‘ ہیں۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہونے کے بعد رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ کر انڈیا چلی گئی تھیں۔
حسینہ واجد اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ نئی دہلی پہنچی تھیں جہاں انہوں نے برطانوی ویزے کے لیے درخواست بھی دی ہے۔

پولیس نے 19 جولائی کو پُرتشدد مظاہروں کو دبانے کے لیے گروسری سٹور کے مالک کو گولی مار دی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اتوار کو انڈیا میں اکنامک ٹائمز اخبار کی ایک رپورٹ میں حسینہ واجد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے انہیں بے دخل کرنے میں کردار ادا کیا کیونکہ وہ خلیج بنگال میں واقع بنگلہ دیش کے سینٹ مارٹن جزیرے پر اپنا کنٹرول چاہتا ہے۔
اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یہ پیغام اپنے قریبی ساتھیوں کے ذریعے اسے پہنچایا تھا۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو ہٹانے میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں تھا، اور امریکی مداخلت کے الزامات سراسر غلط‘ ہیں۔
پیر کو ایک پریس میں بریفنگ میں سوال کا جواب دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرائن جین پیئر نے کہا تھا کہ ’ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی بھی ایسی اطلاعات یا افواہیں کہ ان واقعات میں امریکہ کی حکومت ملوث تھی سراسر غلط ہیں۔‘
اُدھر حسینہ واجد کی اقتدار سے رخصتی کے بعد بنگلہ دیش میں نئی عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے اور نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے اس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنا عہدہ بھی سنبھال لیا ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی کابینہ 15 ارکان پر مشتمل ہے جس میں طلبہ، اقلیتی برادری کے افراد اور خواتین بھی شامل ہیں۔

شیئر: