Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بچے شوہر کی قید میں‘، انڈین خاتون کا پاکستانی شہری کے خلاف مقدمہ

انڈین شہری فزانہ بیگم کی پاکستانی شہری یوسف مرزا سے شادی 2015 میں ہوئی۔ فوٹو: بشکریہ فرزانہ بیگم
’چاند رات کو میرا شوہر اپنے ساتھ چار بندے گھر لے آیا اور مجھے زبردستی گاڑی میں بٹھا کر واہگہ بارڈر لے گیا۔ وہ مجھے کسی طرح پاکستان سے باہر بھیجنا چاہتا تھا۔‘
یہ کہنا ہے انڈین ریاست تامل ناڈو میں پیدا ہونے والی فرزانہ بیگم کا جنہوں نے ایک پاکستانی سے شادی کی اور پھر شیخوپورہ میں رہنے لگیں۔
سال 2008 میں فرزانہ بیگم روزگار کی تلاش میں ابوظہبی گئیں جہاں ان کی ملاقات ایک پاکستانی شخص مرزا یوسف الٰہی سے ہوئی۔
فرزانہ بیگم ابوظہبی کے ایک بیوٹی سیلون میں مہندی لگانے کا کام کرتی تھیں۔
انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ وہ ہر شام کام سے فارغ ہونے کے بعد ٹہلنے جایا کرتی تھیں جہاں انہیں مختلف لوگوں سے ملنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ اسی طرح سے ایک مرتبہ ان کی ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو مرزا یوسف الٰہی کی گرل فرینڈ تھی۔
فرزانہ اور اس خاتون کی دوستی ہو گئی اور یوں مرزا یوسف الٰہی سے بھی ملاقات ہوئی۔ فرزانہ کے بقول 2015 میں یوسف مرزا اور انہوں نے شادی کا ارادہ کیا۔
’مرزا یوسف الٰہی نے انڈیا اور پاکستان کے معاملات کی وجہ سے ایک شرط رکھی کہ ہم کبھی پاکستان نہیں جائیں گے۔ میرے گھر والے راضی نہیں تھے لیکن پھر بھی میں نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے شادی کر لی۔‘
فرزانہ کے مطابق ان کے شوہر ابوظہبی میں دو کنسٹرکشن کمپنیز کے مالک ہیں اور ان کی بہت زیادہ جائیداد بھی ہے۔
فرزانہ نے بتایا کہ ان کے شوہر اکثر پاکستان جایا کرتے تھے لیکن پھر 2018 میں وہ انہیں بھی ساتھ لے گئے۔
’جب میں پاکستان آئی تو مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا کیونکہ یہاں پہنچ کر مجھے علم ہوا کہ مجھ سے پہلے ان کی چار شادیاں ہوچکی ہیں۔ میرے شوہر اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی بڑی جائیداد ہے اور انہیں اولاد نرینہ کی صورت میں اس کے لیے وارثین چاہیے۔‘

 فرزانہ بیگم کے مطابق شوہر نے انہیں بچوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فرزانہ بیگم

فرزانہ بیگم نے مزید بتایا کہ انہوں نے بھی ابوظہبی میں اپنے خالہ زاد سے نکاح کیا ہوا تھا لیکن خلع لے کر مرزا یوسف الٰہی سے شادی کر لی اور ان سے دو بیٹے ابراہیم اور اسماعیل پیدا ہوئے۔
’اس (شوہر) نے ایک گھر اور گودام بیٹوں کے نام کیا۔ پاکستان میں اس کی ایک بیوی اور بیٹیوں سے یہ سب برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے مل کر مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ گذشتہ رمضان بھر انہوں نے مجھ پر تشدد کیا اور پھر اس (شوہر) نے مجھے واہگہ بارڈر کے ذریعے انڈیا واپس بھیجنے کی کوشش کی۔‘
پہلے سے شادی شدہ ہونے اور پھر بیٹیوں کی جانب سے تنگ کرنے کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کے سامنے احتجاج کیا تو انہوں نے ان پر مبینہ طور پر تشدد شروع کر دیا۔ انڈیا واپس بھیجنے کے لیے جب انہیں امیگریشن کاؤنٹر لے جایا گیا تو ان کے بقول حکام نے انہیں واپس بھیج دیا۔
وہاں سے واپسی پر فرزانہ نے شیخوپورہ کے تھانہ فیکٹری ایریا میں اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کیا جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ان کے شوہر ان پر تشدد کرتے ہیں اور ان کی جان کو خطرہ ہے۔
فرزانہ بیگم نے مزید بتایا ’مجھے رحمان گارڈن میں قائم ایک گھر میں بچوں سمیت قید کیے رکھا اور باہر سکیورٹی تعینات کر دی۔ ان کے بھائیوں نے مجھے پولیس اور عدالت میں جانے سے منع کیا اور کہا کہ وہ میری ہر شرط مانیں گے۔ اس لیے میں نے ابو ظہبی واپسی کی شرط رکھی اور وہ سب راضی ہوگئے لیکن جیسے ہی معاملہ دبنے لگا تو یہ سب مکر گئے۔‘
ان کے مطابق ان کے شوہر نے دھوکے سے انہیں دوسرے گھر منتقل کیا اور اپنے گھر سے سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت تمام ثبوت مٹا دیے جس کی وجہ سے پولیس کو بھی ثبوت نہیں ملے۔ 
تھانہ فیکٹری ایریا کی پولیس نے اردو نیوز کو مقدمہ درج ہونے اور دیگر معاملات کی تصدیق کی ہے اور بتایا کہ دونوں میاں بیوی کے جھگڑے طویل عرصے سے چل رہے تھے۔
تفتیشی افسر محمد اعظم نے اردو نیوز کو بتایا ’پولیس نے خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا لیکن مرزا یوسف الٰہی نے ضمانت قبل از گرفتاری کرائی۔ ہم کئی بار ان کے شوہر کو لینے گئے لیکن وہ موجود نہیں تھے اور نہ ہی وہ پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔‘

فرزانہ بیگم نے بتایا کہ شوہر کی پہلے سے چار شادیوں کا علم نہیں تھا۔ فوٹو: بشکریہ فرزانہ بیگم

پولیس حکام کے بقول مقدمہ درج ہونے کے بعد شوہر اور بیوی دونوں کے فون نمبر بند ہیں اور ان سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے تاہم بعد میں خاتون نے پولیس کو بتایا کہ ان کے شوہر نے ان سے موبائل چھین لیا تھا۔ 
فرزانہ بیگم نے کہا کہ ان کا شوہر مختلف حربے استعمال کر کے انہیں بچوں کے بغیر ہی انڈیا واپس بھیجنا چاہتا ہے۔
فرزانہ بیگم کے وکیل سعید جنجوعہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی موکلہ پاکستانی قانون سے بے خبر ہیں اور نیشنیلٹی حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکیں۔
فرزانہ بیگم نے بتایا کہ ان کا اور دونوں بچوں کے پاسپورٹ مرزا یوسف کے پاس ہیں اور وہ بچوں کو لے کر ابوظہبی منتقل ہو چکے ہیں۔
’میں صرف اپنے بچوں کے لیے لڑ رہی ہوں۔ اس وقت میری اور میرے بچوں کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ وہ انتہائی با اثر ہے اور یہاں صرف اس کی بات مانی جاتی ہے۔‘
مرزا یوسف الٰہی نے اردو نیوز سے بات کرنے پر ان الزامات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ انہوں نے مختصر بتایا کہ ’مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ میں 45 سال باہر کے ملکوں میں رہا ہوں اور یہاں کے لوگوں کو میں خوب جانتا ہوں۔ ان سب الزامات پر میں بعد میں بات کروں گا۔‘
تاہم مسلسل رابطہ کرنے اور واٹس ایپ کے ذریعے پیغامات بھیجنے کے باوجود وہ اپنا مؤقف دینے سے کتراتے رہے۔ 
فرزانہ بیگم نے ایک ماہ قبل جولائی میں لاہور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور بچوں کو ان کی تحویل میں دینے کے مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے پاکستان میں رہائش اور تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

فرزانہ بیگم نے عدالت سے پاکستان میں تحفظ فراہم کرنے کی استدعا کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اگست کے مہینے میں عدالت نے وزارت داخلہ سے آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر بچے بیرون ملک ہیں تو ان کو واپس لانے کے لیے اقدامات کی رپورٹ پیش کی جائے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ پولیس نے بچوں کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ 
فرزانہ بیگم نے بتایا کہ شادی کے بعد سے انہوں نے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کی۔
’اب تک انڈیا میں اپنے گھر والوں سے بات نہیں ہوئی۔ میرے بچے میرے شوہر کی قید میں ہیں۔ میں یہاں اکیلی ہوں۔ پاکستان کی سرکار مجھے تحفظ فراہم کرے اور میرے بچوں کو واپس کروانے میں تعاون کرے۔‘

شیئر: