خواتین کو سوشل میڈیا انفلوئنسرز بنانے کا ’سرکل‘
جمعہ 6 ستمبر 2024 5:39
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
انسان ٹیکنالوجی کی ترقی کے متوازی اپنے طور طریقوں میں جدت لا رہا ہے۔ تعلیم کو اب تک نصابی کتب، نوٹ بک، سکول، کالج اور یونیورسٹی سے منسلک کیا جاتا تھا لیکن اب یہ سوچ بدل رہی ہے اور انٹرنیٹ ایک انقلابی پیش رفت ثابت ہوئی ہے جس سے روایتی تعلیم میں تو مدد ملتی ہی ہے بلکہ سوشل میڈیا کے لیے وی لاگز اور ریلز بھی بنائے جاتے ہیں جس کے باعث سوشل میڈیا انفلوئنسرز کا تصور ابھرا ہے جو ایسی مشہور شخصیات ہیں جو سماج پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پاکستان میں ایسے صارفین کو تیکنیکی معلومات تو با آسانی حاصل ہوجاتی ہیں لیکن بہت کم لوگ اسے بطور روزگار اختیار کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کیوں کہ اس حوالے سے تربیت فراہم کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لیے ’سرکل‘ نامی ادارے نے خاص طور پر گھریلو اور کم آمدن والی خواتین کو 'انفلوئنسرز' بنانے کا پروگرام شروع کیا ہے۔
’سرکل‘ میں گھریلو خواتین کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح سوشل میڈیا سٹار یا ’انفلوئنسر‘ بن سکتی ہیں اور کیسے اسے اپنا ذریعۂ معاش بنا سکتی ہیں؟
’سرکل‘ کی سی ای او اور بانی صدف عابد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کو یہ خیال کورونا وبا کے دوران آیا جب انہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل صنفی تقسیم بہت زیادہ ہے یعنی اگر کسی خاتون کے پاس سمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک رسائی ہو بھی تو وہ اس کے استعمال سے لاعلم ہے۔ ایسی خواتین صرف واٹس ایپ اور کھانا بنانے کی ویڈیوز دیکھنے تک ہی محدود رہتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں بہت کم خواتین کو معلوم ہے کہ ایک سمارٹ فون نیٹ ورکنگ کے علاوہ حصولِ علم اور حتیٰ کہ روزگار کا ایک موثر ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔‘
صدف عابد نے پاکستانی خواتین تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل لٹریسی پروگرام کا آغاز بھی کیا ہے۔ اس پروگرام سے 20 ہزار خواتین منسلک ہوئیں جو اب سمارٹ فون کے ذریعے اپنے معاش کا بندوبست کر رہی ہیں۔
سرکل کی جانب سے ایک اور پروگرام ’نینو انفلوئنسر‘ لانچ کیا گیا ہے۔ صدف عابد کے مطابق، ’اس پروگرام کے تحت ہم خواتین کو یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر انفلوئنسرز بننا سکھاتے ہیں تاکہ وہ اسے اپنے روزگار کا ذریعہ بنا سکیں۔‘
ان کے مطابق اس پروگرام میں اب تک 800 خواتین شامل ہوچکی ہیں جو بغیر کوئی فیس ادا کیے انفلوئنسر بننا سیکھ رہی ہیں اور گلگت بلتستان جیسے دور دراز علاقے کی خواتین بھی اس پروگرام میں دلچسپی لے رہی ہیں۔
صدف عابد نے اس بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہوئے کہا، ’ہم اِن خواتین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے فالوورز بڑھانے تک سب کچھ سکھاتے ہیں اور پھر ان کو مختلف برانڈز سے جوڑتے ہیں۔‘
ان کے مطابق، خواتین کو ایک ہفتے تک براہِ راست ٹریننگ دی جاتی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ خواتین کو اس پروگرام کے ساتھ آن لائن طور پر بھی منسلک کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین مستفید ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا، ’ٹریننگ کے علاوہ ہم ان خواتین کو عملی زندگی میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جنہیں با اعتماد بنانے کے علاوہ ہم ان کی آمدن شروع ہونے تک ان کی مدد کرتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر اس وقت چند پاکستانی خواتین بطور انفلوئنسرز یا سٹار جانی جاتی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر کا انحصار صرف ویوز پر ہوتا ہے جبکہ ان کی فالوونگ کافی زیادہ ہے لیکن اس پروگرام میں تمام خواتین کو صفر سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔
صدف عابد نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ نئے چہرے سامنے آئیں اور بڑے ناموں کے مقابلے میں انتہائی مقامی خواتین نئے پیرائے میں کام شروع کریں جیسے صحت، صفائی، سپورٹس، بچوں کی پرورش وغیرہ۔‘
انہوں نے اس حوالے سے اُردو نیوز کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا، ’پاکستان میں خواتین ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہیں اور اُن کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پر آنا مشکل ہے جب کہ حقیقت میں وہ اس نئی ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اس لیے ہم یہ چاہتے ہیں کہ ملک کی نصف آبادی کو ٹیکنالوجی کے ثمرات سے محروم نہ رکھا جائے۔ اگر ایک خاندان یا پورے ملک نے ترقی کرنی ہے تو مرد اور عورت کو ساتھ چلنا ہوگا۔‘
اس پروگرام کی لیڈ ٹرینر عائشہ محمود خواتین کو سوشل میڈیا کے استعمال، سوشل میڈیا منیجمنٹ، سٹریس منیجمنٹ، موضوع کے انتخاب وغیرہ کی ٹریننگ دیتی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم خواتین کو صرف انفلوئنسر بننا نہیں سکھاتے بلکہ انہیں پرسنل برانڈنگ کی تعلیم بھی دیتے ہیں کیوں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی کا بھی پرسنل برانڈ موجود ہونا ضروری ہوگیا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ جڑا رہے اور اپنا روزگار بھی پیدا کر سکے۔‘
ان کے مطابق یہ پروگرام تقریباً پاکستان کے ہر شہر میں جاری ہے اور اس میں مختلف پس منظر کی خواتین شریک ہو رہی ہیں۔ کئی عورتیں کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کرنا چاہتی ہیں تو کئی عورتیں کیمرے پر آ کر دنیا سے مخاطب ہونے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ تک نہیں بنا سکتیں لیکن ہم انہیں معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے انہیں یہ سکلز سکھاتے ہیں۔‘