حکومت نے سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کیوں لگائی؟
حکومت نے سرکاری ملازمین کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کیوں لگائی؟
منگل 3 ستمبر 2024 12:05
سوشل ڈیسک -اردو نیوز
سرکاری ملازمین بغیر اجازت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال نہیں کر سکیں گے (فوٹو: پکسابے)
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے بلا اجازت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی کر دی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سرکاری ملازمین کے لیے ہدایت نامہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آنے والے اداروں کے ملازمین بغیر اجازت کوئی میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکیں گے۔
ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازم سرکاری معلومات یا دستاویز کو بغیر اجازت دوسرے سرکاری ملازم، نجی شخص یا پریس کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا۔
ہدایت نامے کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم ایسی رائے کے بیان سے گریز کرے گا جس سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔ ساتھ ہی ساتھ سرکاری ملازمین کو پاکستان کی نظریاتی اور سالمیت یا کسی بھی حکومتی پالیسی یا فیصلے کے خلاف رائے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں سرکاری ملازمین کو کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر ایسے خیالات کے اظہار سے بھی منع کیا گیا ہے جو قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکیں یا غیرملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکیں یا عوامی نظم، شائستگی، اخلاقیات کو مجروح کریں، توہین عدالت، ہتک عزت یا کسی جرم کی ترغیب کا سبب بنیں یا فرقہ وارانہ عقائد کی تشہیر کریں۔
ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو آن لائن ویب سائٹس اور فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام جیسی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز پر بحث و مباحثہ کرتے دیکھا گیا ہے، ملازمین کو کسی بحث و مباحثے میں رائے دینے کی اجازت نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کے حوالے سے سرکاری ملازمین کے لیے جاری ہدایات میں کہا گیا ہے کہ ان پر وہی ہدایات اور قوانین لوگو ہوں گے جو ان کی تقاریر اور میڈیا میں مضامین شائع کرتے ہوئے ہوتے ہیں۔
سرکاری ملازمین سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے سرکاری دستاویزات بھی شیئر نہیں کریں گے اور غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے کسی بھی معلومات کا تبادلہ نہیں کریں گے۔
سرکاری ملازمین کو خاص ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط اور اعتدال سے کام لیں اور کسی فرد، گروہ فرقے یا مذہب کے خلاف توہین آمیز بیانات سے گریز کریں۔
پاکستان میں جہاں گزشتہ ہفتوں سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سروسز بندش سے گزر رہی ہیں وہیں سرکاری ملازمین کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر لگنے والی پابندیاں نئے سوالات کو جنم بھی دے سکتی ہیں۔
تاہم وفاقی حکومت نے اپنے ہدایت نامے میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان ہدایات کا مقصد کسی سرکاری ادارے کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے روکنا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے سرکاری ادارے عوام کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتے ہیں جس سے حکومت کی پالیسی پر فیڈ بیک حاصل ہو سکتا ہے اور عوام کی شکایات کے حل کے لیے مدد مل سکتی ہے۔
ہدایت نامے میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مسلسل یا باقاعدگی سے مانیٹر کریں تاکہ توہین آمیز، نامناسب اور قابل اعتراض تبصروں کو ہٹایا جا سکے۔
وفاقی حکومت کے ہدایت نامے کے مطابق اس کا اطلاق تمام سروسز گروپس کے سرکاری ملازمین پر ہوگا اور ہدایات کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔
حکومت سرکاری ملازمین پر پابندی کیوں لگاتی ہے؟
واضح رہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی حکومت نے سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کی ہو۔ اس سے قبل اگست 2023 میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی قائم مقام حکومت نے سرکاری ملازمین پر اس قسم کی پابندی عائد کی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیراعظم کی ہدایت پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا کی پابندیوں بارے اسی نوعیت کا ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔
سرکاری ملازمین پر لگائی جانے والی یہ پابندی گورنمنٹ سرونٹس رولز 1964 ایکٹ کے تحت لگائی جاتی ہے اور حکومت کے مطابق اس کا مقصد سرکاری معلومات اور دستاویزات افشا ہونے سے روکنا ہوتا ہے۔
رولز 1964 سرکاری ملازمین کو بیان یا اپنی رائے دینے سے روکتا ہے۔ سروس رولز کا رُول 18 سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا کسی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکتا ہے۔
رول 22 سرکاری ملازم کو میڈیا پر یا عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا بیان یا رائے دینے سے روکتا ہے جس سے حکومت کی بدنامی کا خطرہ ہو۔
رولز 21، 25، 25 اے اور 25 بی سرکاری ملازمین کو پاکستان کے نظریے اور سالمیت یا کسی حکومتی پالیسی یا فیصلے کے خلاف خیالات کے اظہار سے روکتے ہیں۔
کیا یہ ملک میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے؟
یاد رہے کہ پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور تقریباً سب نے سرکاری ملازمین پر اس قسم کی پابندیاں عائد کیں، وفاقی حکومتوں نے متعدد بار تنبیہ بھی جاری کی، اُس کے باوجود سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال جاری رہا۔
ماضی میں ہمیں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک پر سرکاری معلومات افشا ہونے کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں، اکثر پولیس آفیسرز اور دیگر سرکاری ملازمین کی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جس کے بعد متعلقہ اداروں کو اپنے ملازمین کے خلاف کارروائی کرنا پڑتی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بظاہر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا مشکل سے ناممکن ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت انٹرنیٹ کے آگے اگر دیوار کھڑی کر بھی دے تو وی پی این جیسی سروسز سے عوام سوشل میڈیا تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر یہاں بات تھوڑی مختلف ہے، کیونکہ سرکاری ملازمین پر لگائی جانے والی پابندی کو دراصل سوشل میڈیا کی پابندی نہیں کہا جاسکتا، یہ محض ’کوڈ آف کنڈکٹ‘ ہے جو کسی ادارے کی طرف سے اپنے ملازمین کے لیے جاری کیا جاتا ہے اور ملازم پر اس کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے۔