Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار

چیف جسٹس نے کہا کہ ’مجھے تو کل کا بھی علم نہیں، میں اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کروں گا۔‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے انکار کر دیا ہے۔
پیر کو نئے عدالتی سال کے فل کورٹ ریفرنس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک میٹنگ میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ حکومت تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’باقیوں کی توسیع کر دیں، لیکن میں قبول نہیں کروں گا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کل زندہ رہوں گا یا نہیں۔‘
 چیف جسٹس نے مزید وضاحت کی کہ ’رانا ثناء اللہ کا یہ کہنا کہ اگر تمام ججوں کی عمر بڑھا دی جائے تو چیف جسٹس بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں، درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور اٹارنی جنرل کے ساتھ وزیر قانون نے چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع پر بات کی تھی۔‘
 چیف جسٹس نے کہا کہ ’مجھے تو کل کا بھی علم نہیں، میں اپنی مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کروں گا۔‘
چھ ججز کے خط سے متعلق سوال پر چیف جسٹس نے بتایا کہ اس معاملے کو کمیٹی نے حل کرنا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کی ناسازی کی وجہ سے بینچ تشکیل نہیں پا سکا تھا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی صدارت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہو سکے، جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے شرکت کی۔
فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’ماضی میں بینچ دیکھ کر ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ کیس کا کیا فیصلہ ہو گا، لیکن میں مقدمات میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں۔ ہر جج کا اپنا ایک رجحان ہوتا ہے، اور اب کیس کا فیصلہ اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس جج کے پاس لگتا ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’ہم نے عدالتی نظام میں بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

 انھوں نے کہا کہ ’اس موقع پر ادارے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں نے اپنی تجاویز دیں کہ کارکردگی کیسے بہتر کی جا سکتی ہے۔‘
 انہوں نے کہا کہ انہیں ’بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہونے میں صرف 9 دن باقی ہیں، اور چار سال میں پہلی بار فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا ہے۔‘
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’کبھی کبھار صحافیوں کو کوئی فیصلہ پسند نہ آئے تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ چیف جسٹس نے کیس نہیں سنا۔ تبصرے ضرور کریں، لیکن حقیقت کی بنیاد پر، مفروضوں پر نہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ سچ بولیں اور سچ بتائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر موجود افراد طویل عرصے سے کام کر رہے تھے، حالانکہ قانون کے مطابق کوئی بھی شخص تین سال سے زیادہ ڈیپوٹیشن پر نہیں رہ سکتا۔ اس غیر قانونی عمل کو ختم کرتے ہوئے ان افراد کو رخصت کیا گیا، جس سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی آسامیاں عرصہ دراز سے خالی تھیں، جنہیں شفاف طریقے سے پر کرنے کے لیے اشتہار دیا گیا اور 78 آسامیاں بھر دی گئیں۔ ہم یہاں عوام کی خدمت کے لیے موجود ہیں۔ میرے لیے 3000 سی سی مرسڈیز ضروری نہیں تھی، اس لیے اسے واپس کر دیا گیا اور حکومت سے کہا کہ اس کی رقم سے عوام کے لیے بسیں خریدی جائیں۔ ہمیں ٹویوٹا یا دیگر گاڑیاں چلانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے اور اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’ہم نے عدالتی نظام میں بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔ قانون کے مطابق سپریم کورٹ میں 16 ججز اور ایک چیف جسٹس ہونے چاہئیں، جو کئی سالوں سے مکمل نہیں تھا، لیکن اب ہم نے یہ تعداد مکمل کر لی ہے۔‘
’صرف منصوبہ بندی سے کیسز کم نہیں ہوں گے، ججز کو بھی کام کرنا ہوگا۔ ہم نے روایت ختم کی ہے کہ کیسز کی سماعت میں تاریخیں دی جائیں، اب کیسز جس دن لگیں گے، اسی دن چلیں گے، اور ججز سے درخواست ہے کہ وہ کیسز کی بروقت سماعت کریں۔‘

شیئر: