Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے‘ (فوٹو: پی ٹی وی نیوز) 
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’پہلے تو بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا، اب خود مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ دیں گے۔‘
پیر کو نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ دیکھا جائے کہ کیا پہلے سے بہتری یا شفافیت آئی ہے؟‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’میں کیس میں سے بدنیتی کا عنصر نکال دیتا ہوں۔ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے۔ اتنا علم ہو جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا ہے تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہو گا۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، 30،40 سال میں لوگوں نے بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے۔اتنے تجربے میں کسی نہ کسی طرف رجحان بن جاتا ہے۔اب یہ کیس کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے بتایا کہ ’مجھے 9 دن بعد بطور چیف جسٹس ایک سال مکمل ہو جائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ بلایا۔ میں نے سپریم کورٹ کی پروسیڈینگ کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد عوام تک اپنی کارکردگی دکھانا تھا۔ پہلے عوام کو وہی معلوم ہوتا تھا جو ٹی وی چینلز دکھاتے تھے یا یوٹیوبر بتاتے تھے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’پہلے کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا، اب چیف جسٹس کا کازلسٹ میں تبدیلی کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے، اب کازلسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، مقدمات کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار رجسٹرار کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سب کو پتہ ہے نگران حکومت تھی اور الیکشن نہیں ہورہے تھے۔ الیکشن پٹیشن سپریم کورٹ کے سامنے آئی، تین دن سنوائی ہوئی اور بارہ دن میں فیصلہ ہو گیا۔ ہم نے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا، صدر صاحب فرما رہے تھے الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، الیکشن کمیشن کہہ رہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’رکاوٹ ڈالنے والے ہر چیز میں ہی ڈھونڈ لیتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ کی حدود صوبے تک ہوتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رہتا تو فروری میں الیکشن نہ ہو پاتے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’الیکشن جمہوریت کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں، پارلیمان قانون بناتی ہے، ہمارا کام ہے اس کی تشریح کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے کبھی کبھی ہنسی آتی ہے کہ پرانے صحافیوں کو کوئی بات پسند نہ آئے تو کہتے ہیں چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا۔ تبصرے ضرور کیجیے لیکن حقیقت کی بنیاد پر مفروضوں پر نہیں، آپ کی ذمہ داری ہے سچ بتائیں۔‘

شیئر: