پنجاب میں ملزمان کی ضمانتوں اور سزاؤں میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
پنجاب میں ملزمان کی ضمانتوں اور سزاؤں میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
جمعہ 13 ستمبر 2024 14:37
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے کہا کہ ’پولیس کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان کے گواہان ہی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ پنجاب میں پولیس کو اس بات کی پریشانی لاحق ہے کہ عدالتوں سے ملزمان کی ضمانتیں ہونے کی وجہ سے جرائم کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
پولیس کی جانب سے وزرات قانون کو لکھے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بعض کیسوں میں نوے فیصد ملزمان ضمانتیں لے کر باہر آ جاتے ہیں اور دوبارہ جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے نظام انصاف میں جرائم پیشہ افراد کو عدالت میں سزا دلوانے کے لیے سب سے اہم ادارہ پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ ہے جو پولیس کی تفتیش کو عدالت میں ثابت کر کے ملزمان کو سزا دلواتا ہے۔ اور کسی بھی ملزم کا رہا ہونا پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کیے گئے مقدمے پر منحصر ہوتا ہے۔
ملزمان پر قانون کی گرفت کیوں کمزور ہے؟
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ملزمان کی ضمانتیں ضرورت سے زیادہ ہو رہی ہیں۔
’تاہم اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ پولیس خود ہے۔ عام طور پر جرائم جیسا کہ ڈکیتی اور چوری میں خود پولیس ہی گواہ ہوتی ہے۔ پولیس کا کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان کے گواہان ہی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کئی عدالتوں نے کئی افسران کی اس بات پر تنخواہیں تک بند کی ہیں کہ وقت پر گواہان عدالتوں میں پیش نہیں کرسکے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب قانون میں دیے گئے وقت کے مطابق ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو لا محالہ اس کا فائدہ ملزمان کو ملتا ہے اور عدالتیں قانون کے مطابق انہیں ضمانت دے دیتی ہیں۔ دوسری وجہ تعزیرات پاکستان میں اکثر جرائم کی سزائیں کم ہونے کی وجہ سے بھی ملزمان ضمانت لے لیتے ہیں، اور اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔ جہاں تک بری ہونے کا تعلق ہے تو سب سے زیادہ ریپ کے کیسز اور قتل کے مقدمات میں ملزمان بری ہوتے ہیں اس کی وجہ مدعیان کا پیچھے ہٹ جانا ہے۔‘
دوسری طرف عدالتوں میں چالان وقت پر پیش نہ ہونے پر لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا تھا کہ پچھلے پانچ سالوں کا ریکارڈ مرتب کیا جائے۔
پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 سے اب تک 50 لاکھ سے زائد مقدمات صوبہ بھر میں درج کیے گئے ہیں۔ جن میں 46 لاکھ سے زائد مقدمات کا چالان عدالتوں میں پہنچا۔ جس کے بعد ہائی کورٹ کے حکم پر اس گیپ کو پورا کیا جا رہا ہے۔ اور ابھی بھی ایک لاکھ مقدمے ایسے ہیں جن کا چالان پیش ہونا ابھی باقی ہے
سابق آئی جی پنجاب خالد خواجہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے فوجداری نظام کو شدید قسم کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ نظام میں سب سے بڑا سقم تو پولیس کے پاس استعداد کار اور وسائل کی قلت ہے۔ ایک ایک تفتیشی کے پاس سو سو مقدمات ہیں جن کی اس نے تفتیش کرنی ہے اور ثبوت اکٹھے کر کے چالان پراسیکیوشن کے حوالے کرنا ہے۔ تاخیر سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا فائدہ آخر میں قانون کے مطابق ملزمان کو ملتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فرض کریں چوری کی سزا سات سال ہے اور ملزم ڈیڑھ سال سے اندر ہے تو وہ آدھی سزا تو کاٹ چکا اور ابھی اس کا جرم ثابت نہیں ہوا تو عدالت اسے ضمانت دے گی۔ سیاسی اور مذہبی اجتماعات اور دیگر معاملات کی وجہ سے ساری پولیس فورس لگا دی جاتی ہے، انویسٹیگیشن ونگ بھی آپریشن کے ساتھ ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے۔ ان کے پاس تفتیشن کا وقت ہی کم بچتا ہے۔‘