شبانہ اعظمی، ایک ایسی فنکارہ جس نے اداکاری کو نیا مفہوم دیا
شبانہ اعظمی، ایک ایسی فنکارہ جس نے اداکاری کو نیا مفہوم دیا
بدھ 18 ستمبر 2024 5:20
علی عباس۔ لاہور
یہ سال 1974 کا ذکر ہے جب انڈین ریاست تلنگانہ کے شہر حیدرآباد میں ایک ایسی اتہاسک فلم کی شوٹنگ جاری تھی جس نے بالی ووڈ میں متوازی سنیما کی روایت کو مستحکم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
یہ بالی ووڈ کے لیجنڈ ہدایت کار شیام بینیگل کی فلم ’انکور‘ تھی جس کے ذریعے انہوں نے بطور ہدایت کار اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ اُن سے قبل منی کول اور کمار شاہانی جیسے ہدایت کار ’اُس کی روٹی‘ اور ’مایا درپن‘ جیسی یادگار فلمیں بنا چکے تھے مگر یہ ’انکور‘ تھی جس نے حقیقی معنوں میں عوامی توجہ حاصل کی مگر یہ فلم بنانا شیام جی کے لیے آسان نہیں رہا تھا۔
انہوں نے اس فلم کا سکرپٹ 13 برس قبل لکھا تھا مگر اس سنجیدہ موضوع پر کوئی فلم بنانے پر ہی تیار نہیں تھا۔ فلم کے پروڈیوسرز میں سے ایک للت بجلانی بھی تھے جو اس سے قبل ایڈورٹائزنگ انڈسٹری اور ڈسٹری بیوشن کے کاروبار تک محدود تھے۔ چناں چہ شیام بینیگل کا للت بجلانی کے فلم پروڈیوس کرنے کے فیصلے پر حیران ہونا بجا تھا۔
انہوں نے اس بارے میں انڈین اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ’میری للِت سے ملاقات رہتی تھی۔ ایک پارٹی میں مدہوشی کے عالم میں للِت نے مجھے مخاطب کیا اور کہا، ’سنو، تم ایک طویل عرصے سے فلم بنانے کی خواہش رکھتے ہو لیکن تم فلم بناتے کیوں نہیں؟ میں نے استفسار کیا کہ کیا وہ رقم لگائیں گے تو اُن کا جواب اثبات میں تھا۔‘
یہ فلم غیرمتوقع طور پر ایک نئی کاسٹ کے ہوتے ہوئے بھی ناصرف کاروباری طور پر کامیاب رہی بلکہ ناقدین کی جانب سے بھی سراہی گئی اور یوں للِت بجلانی بلیز پروڈکشن کا قیام عمل میں لائے جس نے شیام بینیگل کی چار مزید فیچر فلموں کو پروڈیوس کیا۔
فلم ’انکور‘ کی ریلیز کو رواں برس نصف صدی مکمل ہو گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے مرکزی کردار کے لیے شبانہ اعظمی کبھی شیام بینیگل کا پہلا انتخاب نہیں تھیں بلکہ ہدایت کار تو وحیدہ رحمان کو فلم میں کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر وحیدہ جی کے انکار پر انہوں نے تیلگو فلموں کی نمایاں اداکارہ شردھا سے رابطہ کیا، بات بن نہ سکی کیوں کہ وہ دَکھنی لہجے میں بات نہیں کر سکتی تھیں۔ اُس وقت شیام جی کے معاون نے اِن کو ایک نئی اداکارہ کے بارے میں بتایا۔
’کیا اُس کا پرفارمنگ آرٹس کا کوئی پس منظر ہے؟‘ شیام جی نے اپنے معاون سے سوال کیا۔
اُن کے معاون نے جب شیام جی کو یہ بتایا کہ وہ مشہور شاعر کیفی اعظمیؔ کی صاحب زادی اور تھیٹر کی ممتاز اداکارہ شوکت کیفی کی بیٹی ہیں اور پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ انڈیا کی فارغ التحصیل ہیں تو شیام جی نے اداکارہ کو آڈیشن کے لیے بلانے کے لیے ہدایت کر دی کیوں کہ ہدایت کار خود بھی کسی زمانے میں اس تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دے چکے تھے۔
انڈین اخبار ’ممبئی مرر‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں شیام بینیگل بتاتے ہیں، ’مجھے ایک ہی نظر میں شبانہ (اعظمی) بھا گئیں اور میں یہ جانتا تھا کہ وہ لکشمی (کے کردار) کے لیے موزوں ترین ہیں۔ جی ہاں، وہ نوجوان تھیں اور نوجوان ہی نظر آتی تھیں لیکن میں اُن کے لیے کردار میں ترمیم کرنے کے لیے تیار تھا۔ میں نے اپنی چھٹی حس کے آگے سرتسلیم ختم کرتے ہوئے اداکارہ کو اُس وقت فی الفور کاسٹ کر لیا جب یہ معلوم ہوا کہ ان کی والدہ تلنگانہ سے ہیں اور دکھنی بولتی ہیں۔ میں نے اُن کا آننت (ناگ) کی طرح آڈیشن بھی نہیں لیا جو اُن کے لیے خود بھی حیران کن تھا۔‘
اور یوں دیہاتی دلِت خاتون لکشمی کا یادگار کردار تخلیق ہوا جس نے شبانہ اعظمی کو اُن کی پہلی ہی فلم کے ذریعے ایسی اداکاراؤں کی صَف میں لا کھڑا کیا جنہوں نے اداکاری کے معنی ہی تبدیل کر دیے۔ یہ کہا جائے کہ یہ اُن کے نصف صدی پر محیط کیریئر کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے تو غلط نہ ہوگا۔
’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے اداکارہ نے ’انکور‘ کو اپنے نصف صدی پر محیط طویل کیریئر کی پانچ بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ انہوں نے اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ یہ ستیہ جیت رے کی فلم کی شوٹنگ کی طرح کا تجربہ تھا۔‘
خیال رہے کہ اداکارہ اُن دنوں خواجہ احمد عباس کی فلم ’فاصلہ‘ اور کانتی لال راٹھور کی فلم ’پرینے‘ میں بھی کام کر رہی تھیں مگر اُن کی فلم ‘انکور‘ ان دونوں فلموں سے پہلے ریلیز ہو گئی اور اداکارہ کو اپنی پہلی ہی فلم پر بہترین اداکارہ کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہوں نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’میں ایک شہری لڑکی تھی جو انگریزی بولتی تھی اور کبھی گاؤں میں نہیں رہی تھی۔ شیام بابو نے جب لکشمی کے کاسٹیوم تیار کر لیے تو ہم نے کردار پر کام کرنا شروع کیا۔‘
’انکور‘ میں لکشمی کے کردار کو شبانہ اعظمیٰ نے کچھ اس خوبی سے ادا کیا کہ ستیہ جیت رے نے فلمی تنقید پر اپنی کتاب ’آور فلمز، دیئر فلمز‘ میں اداکارہ کو کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ’شبانہ اعظمی اپنے دیہاتی پس منظر میں فوری طور پر موزوں دکھائی نہیں دیتی مگر ان کی شخصیت ضرور اس ماحول میں ڈھل جاتی ہے اور دو اہم مناظر میں انہوں نے بہترین اداکاری کی اور خود کو بہترین ڈرامائی اداکارہ کے طور پر منوا لیا۔‘
بالی ووڈ کی یہ عظیم اداکارہ آج ہی کے روز 18 ستمبر 1950 کو بھارتی ریاست تلنگانہ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئیں۔ والد کیفی اعظمیؔ شاعر اور نغمہ نگار جب کہ والدہ شوکت اعظمی تھیٹر کی معروف اداکارہ تھیں جو پیپلز تھیٹر موومنٹ سے بھی منسلک رہی تھیں۔ والدین کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے منسلک تھے اور بنیادی طور پر اُترپردیش سے تعلق رکھتے تھے۔ شبانہ اعظمی کا نام معروف شاعر اور ادیب علی سردار جعفریؔ نے رکھا تھا۔
شبانہ کے والدین کی ایک متحرک سماجی زندگی تھی اور ان کا گھر کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اداکارہ نے ’ہندی سنیما کا سنہرا دور‘ کے عنوان سے سیریز میں صحافی انوپما چوپڑہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میری والدہ کا واحد زیور ان کا سونے کا کڑا تھا۔وہ اس معاملے پر اپنے خاوند کی ہم خیال تھیں کہ میز پر ہمہ وقت کھانے کا موجود ہونا اہم ترین ہے کیوں کہ کوئی بھی کسی وقت بھی آئے تو میز پر کھانا سجا ہو اور یہ حقیقت میں اچھا کھانا ہو۔ مجھے اور میرے بھائی کو ایک روز شک گزرا کہ گھر میں کچھ مہمان آ رہے ہیں کیوں کہ میری والدہ کے ہاتھ سے کڑا غائب ہو چکا تھا، اور پھر ہم پر یہ آشکار ہوا کہ یہ گروی رکھا جا چکا ہے اور ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کب واپس ملے گا، اور پھر ابا لکھتے اور کڑا واپس مل جاتا۔‘
کمسن شبانہ کی پرورش اس علمی و ادبی ماحول میں ہوئی جس کے اُن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انہوں نے ممبئی کے کوئین میری کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سینٹ زیوئرس کالج سے نفسیات میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد پونے کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کا رُخ کیا جس نے اُن میں پنہاں اداکاری کے ٹیلنٹ کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
شبانہ اعظمی ’انکور‘ کی کامیابی کے بعد متوازی سنیما کی اہم ترین ضرورت بن گئیں کیوں کہ وہ خود کو ہر کردار میں کامیابی سے ڈھال لیتیں جس کے باعث اُن کو کردار سے الگ کرنا ممکن ہی نہیں رہتا تھا۔ وہ ‘نشانت’ کے سکول ماسٹر کی بیوی سشیلا ہو یا ’جنون‘ کی فردوس، وہ ‘سپرش‘ کی کویتا ہو یا ‘البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘ کی سٹیلا، یا ‘ارتھ‘ کی پوجا ہو یا ‘منڈی‘ کی رُکمنی بائی، ‘معصوم‘ کی اندو ہو یا ‘پار‘ کی راما، ان تمام کرداروں میں یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ انہی کو سامنے رکھتے ہوئے لکھے گئے ہوں۔
شبانہ اعظمی کو ‘ارتھ‘ پر سال 1983 میں بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ ملا جس کے بارے میں اداکارہ نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’لوگ آج بھی مجھے یہ بتاتے ہیں کہ اس فلم نے اُن کی زندگیوں کو کس طرح تبدیل کیا۔‘
انہوں نے کہا تھا، ’مہیش بھٹ اور میں دوست تھے اور وہ مجھے پرجوش کر دیتے۔ یہ ایسا ہی تھا کہ وہ بٹن دباتے اور میں کردار میں ڈھل جاتی۔ یہ فلم جب ریلیز ہوئی تو لوگوں نے فلم کی تعریف تو کی مگر اس کے اختتام پر اعتراض کیا…ایک عورت نے اپنے خاوند کو کیوں معاف نہیں کیا جب کہ وہ معافی مانگ رہا تھا؟ ہم نے کہا کہ ہم نے اس خاص اختتام کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی یہ فلم بنائی تھی اور اس پر خدا کے شکر گزار ہیں۔ مجھے اس فلم پر نیشنل ایوارڈ ملا اور یہ زبردست کامیاب رہی۔‘
اداکارہ نے اسی دوران سال 1984 میں معروف نغمہ نگار جاوید اختر سے شادی کر لی مگر اُن کی یہ پریم کہانی تلاطم کا شکار رہی کیوں کہ جاوید اختر پہلے سے شادی شدہ اور دو بچوں فرحان اور زویا کے والد تھے۔
جاوید اختر جب شبانہ اعظمی سے محبت کے رشتے میں بندھے تو اُن کی بیوی اداکارہ ہنی ایرانی کو یہ رشتہ ایک آنکھ نہ بھایا۔
اداکارہ نے اس بارے میں ‘کرلی ٹیلز‘ نامی شو میں بات کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ’ہم (دونوں) نے متعدد بار یہ رشتہ توڑنے کی کوشش کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے بچوں کی وجہ سے تین بار ایسا کرنے کی کوشش کی مگر ایسا ہو نہ سکا۔‘
انہوں نے اداکار ارباز خان کے چیٹ شو میں اپنے اور جاوید اختر کے رشتے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں خوشی محسوس کرتی ہوں کیوں کہ میرا زویا اور فرحان کے ساتھ بہت خوبصورت تعلق ہے اور میں اس کا کریڈٹ ہنی کو دیتی ہوں۔ وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے اور ہنی کے لیے ان کو اپنے ساتھ لے جانا بہت آسان ہوتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے ان کی ہمارے ساتھ رہنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’آج ہنی کے ساتھ بھی ہمارا بہت ہی اچھا تعلق ہے۔ میں جانتی ہوں ہنی کو اگر ضرورت ہو تو وہ رات گئے جاوید کو کال کرنے میں ہچکاہٹ محسوس نہیں کرے گی اور وہ اُس کی مدد کو جائیں گے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارے رشتے میں کوئی کڑواہٹ نہیں ہوگی۔ ظاہر ہے کہ شروع میں وہ بہت غصے میں تھی اور اُس نے یہ محسوس کیا کہ اُس کو ’رَد‘ کیا گیا ہے مگر جاوید نے اس رشتے کو قائم رکھا۔ اور آج جو کچھ بھی ہے، میں اس پر فخر محسوس کرتی ہوں۔‘
انہوں نے اسی پروگرام میں جاوید اختر کی کثرتِ مے نوشی کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی کا مشکل ترین دور قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ وقت اُن کے لیے مشکلات سے بھرپور تھا۔
شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی چار دہائیوں کی پریم کہانی بالی ووڈ کی ایسی سحر انگیز رومانی کہانیوں میں سے ایک ہے جس پر بہت بات ہوتی ہے مگر وہ دونوں ایک دوسرے کو ‘بہترین دوست‘ قرار دیتے ہیں۔
اداکارہ نے شادی کے بعد اپنا کیریئر جاری رکھا اور کئی یادگار فلمیں دیں۔ گزشتہ ہزاریے کی آخری دہائی میں اداکارہ کی ایک اور اہم فلم ’فائر‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے رادھا کے کردار میں حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ اس فلم پر ہونے والا احتجاج دھرے کا دھرا رہ گیا۔
انہوں نے اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا، ‘ہم نے دہلی کے علاقے لاجپت نگر کے ایک چھوٹے سے گھر میں شوٹنگ کی اور میں جانتی تھی کہ اس فلم پر مختلف طرح کا ردِعمل آئے گا۔ لوگ پریشان ہوں گے یا بہت زیادہ ہیجان زدہ کیوں کہ اس فلم میں پیش کیے گئے موضوعات پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔‘
یہ اداکارہ کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے جس میں انہوں نے رادھا کی تنہائی کے کرب کو بڑے پردے پر کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
گزشتہ برس ہدایت کار کرن جوہر کی فلم ‘راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ شہ سرخیوں میں رہی جس میں اداکارہ اور لیجنڈ دھرمیندر کے درمیان بوسے کے منظر کو لے کر خوب بحث ہوئی مگر اس فلم کے ذریعے اداکارہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ بالی ووڈ میں اُن سا کوئی دوسرا نہیں۔
انہوں نے اس فلم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’راکی اور رانی کی پریم کہانی میرے لیے ایک بالکل ہی مختلف طرز کی فلم تھی۔ کرن جوہر نے مجھ سے کہا کہ ‘مجھ پر یقین رکھیے‘ اور میں نے خوشی خوشی سرتسلیم خم کر دیا۔‘
یہ ایک منفرد اعزاز ہی ہے کہ اداکارہ کو سب سے زیادہ پانچ مرتبہ بہترین اداکارہ کا نیشنل ایوارڈ ملا جب کہ وہ ’سوامی‘، ’ارتھ‘ اور ’بھاونا‘ پر بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ اُن کو رواں برس ہی ’راکی اور رانی کی پریم کہانی‘ پر بہترین معاون اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اداکارہ گراں قدر شہری اعزازات پدما شری اور پدما وبھوشن بھی حاصل کرچکی ہیں جب کہ مغرب میں بھی اُن کی اداکاری کو سراہا گیا۔