گذشتہ دو ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
گذشتہ دو ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
بدھ 18 ستمبر 2024 14:20
زین علی -اردو نیوز، کراچی
گذشتہ دو ماہ کے دوران مجموعی طور پر 12 ہزار 274 گاڑیاں فروخت کی گئی۔ (فوٹو: ٹویوٹا)
پاکستان میں گزشتہ دو ماہ میں گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور صارفین مختلف گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں؟
مالی سال 2024-25 کے ابتدائی دو ماہ پاکستان کی آٹو انڈسٹر کے لیے بہتر ثابت ہوئے ہیں۔
جولائی اور اگست کے مہینوں میں ملک میں گاڑیوں کی خریداری میں 27 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان آٹو موٹیومینوفیکچرز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران مجموعی طور پر 12 ہزار 274 گاڑیاں فروخت کی گئی ہیں، جبکہ گذشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 9 ہزار 611 یونٹس فروخت کیے گئے تھے۔ گاڑیوں کی فروخت میں 27.70 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
آٹو سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈالر کی قدر میں استحکام اور شرح سود میں کمی کی وجہ سے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی قیمتوں میں کچھ ٹہراؤ آیا ہے، جس سے خریداروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔
دو ماہ میں کن گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے؟
پاما کے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق 2024-25 کے مالی سال کے ابتدائی دو ماہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی گاڑی ٹویوٹا کرولا اور یاریس تھی، جن کی مجموعی فروخت 2,671 یونٹس رہی۔ اگرچہ ہنڈا سِوک اور سٹی کی فروخت بھی بڑھ کر 1,863 یونٹس ہو گئی، مگر کرولا اور یاریس کی فروخت اس سے زیادہ رہی۔
سوزوکی آلٹو بھی ایک مقبول ماڈل ہے، جس کی فروخت 4,892 یونٹس رہی، لیکن یہ بنیادی طور پر اس کی قیمت اور ایندھن کی کارکردگی کی وجہ سے ہے۔
مجموعی طور پر، ٹوئوٹا کرولا اور یاریس سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ماڈلز میں شامل ہیں۔
کن گاڑیوں کی خریداری میں صارفین نے عدم دلچسپی ظاہر کی ہے؟
پاما کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق رواں سال کے ابتدائی دو ماہ میں سب سے کم فروخت ہونے والی گاڑیاں سوزوکی کلٹس اور ویگن آر تھیں۔
سوزوکی کلٹس کی فروخت 482 یونٹس سے گھٹ کر صرف 227 یونٹس ہو گئی۔ سوزوکی ویگن آر کی فروخت 604 یونٹس سے کم ہو کر 329 یونٹس تک پہنچ گئی۔ یہ دونوں ماڈلز کم فروخت کی وجہ سے مارکیٹ میں نسبتاً کمزور رہے۔
ان کے علاوہ سوزوکی آلٹو کی فروخت میں 16.22 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 4,892 یونٹس رہی۔ سوزوکی بولان کی فروخت میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا، جو 312 یونٹس سے بڑھ کر 1031 یونٹس تک پہنچ گئی۔
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعداد و شمار مجموعی طور پر پاکستانی آٹوموٹو مارکیٹ میں مثبت رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ کچھ مخصوص ماڈلز میں کمی بھی نظر آئی ہے، لیکن مجموعی طور پر صورتحال گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلیاں صارفین کی پسند، اقتصادی حالات، اور مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کے اثرات کی بنا پر ہیں۔ کار ساز کمپنیوں کو اس مثبت رجحان کا فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی مصنوعات کی پیشکش میں جدت لانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ مارکیٹ میں موجود مسابقت کو برقرار رکھ سکیں۔
مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی، انہیں صارفین کی ضروریات اور ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔
مشہود علی خان کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو بھی آٹو سیکٹر کے بارے میں مزید سوچنا ہوگا، ٹیکسز میں کمی کرنی ہوگی تاکہ صارف کے پاس سستی گاڑی خریدنے کا آپشن ہو۔
انہوں نے بتایا کہ رواں برس بیشتر گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے، اس کی بنیادی وجہ ڈالر کی قدر میں استحکام بھی ہے۔
’درآمد کیے جانے والے سامان میں بچت کی وجہ سے کار ساز کمپنیوں کو فائدہ ہوا ہے، اور انہوں نے یہ فائدہ خریدار تک منتقل بھی کیا ہے۔ لیکن اب بھی اس سیکٹر میں کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔‘
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں کار ساز کمپنیاں باہر سے سامان پاکستان منگوا کر اسے اسمبل کرکے گاڑی بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سالوں سے پاکستان میں کام کرنے والی یہ کمپنیاں پاکستان میں گاڑی کے پرزے بنانے کے پلانٹ لگانے پر کام نہیں کررہی ہے۔
ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی قیمت ڈالر کے ریٹ کے حساب سے بڑھانے والوں نے گاڑیوں کی قیمت ڈالر ریٹ کے نیچے آنے پر اس طرح کم نہیں کی ہیں جیسے کرنی چاہیے تھی۔
’گاڑیوں کی قیمتوں میں لاکھوں روپے اضافہ کیا گیا اور جب کم کرنے کی باری آئی تو کچھ ہزار کم کرکے شور مچایا گیا کہ قیمتیں کم کردی گئی ہیں، یا تو ان گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑی کمی کی گئی جن کی ڈیمانڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو آٹو سیکٹر کو دی گئی سہولیات پر غور کرنا ہوگا۔
’گاڑیاں اسمبل کرنے والے گاڑی ملک میں بنانے کی باتیں کرکے ٹیکسز میں چھوٹ تو لے رہیں لیکن وہ کام نہیں کررہے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔‘