Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں ٹک ٹاک بنانے والے سینکڑوں پولیس اہلکار واپس کیوں بلا لیے گئے؟

مریم نواز کے حکم پر پولیس اہلکاروں پر سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے (فائل فوٹو: مریم نواز فیس بُک)
وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے صوبے بھر میں سرکاری ملازمین خاص طور پر محکمہ پولیس کے افسران اور اہلکاروں پر سوشل میڈیا پر ذاتی تشہیر کرنے کی پابندی عائد کر دی ہے۔ 
حکومت پنجاب کے اس حکم نامے کے بعد پولیس کی سرگرمیوں کو ٹک ٹاک پر نشر کرنے والی سرکاری ٹیموں کو بھی واپس بُلا لیا گیا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے ٹک ٹاک پر پولیس وردی میں ملبوس افسران اور اہلکاروں کی بے تحاشا ویڈیوز نے اعلٰی حکام کی توجہ حاصل کی جس کے بعد اِس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ایک وقت تھا کہ مختلف افراد کی جانب سے پولیس کے خلاف اور اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے ٹک ٹاک بنانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس کے جواب میں پولیس نے بھی ان افراد کو گرفتار کرنے کے بعد اُن ہی کی ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کرنا شروع کر دیں۔
تاہم ٹک ٹاک پر جلد تشہیر کے باعث صوبائی دارالحکومت لاہور کے تقریباً تمام پولیس سٹیشنز میں ایک اہلکار کو صرف ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پر مامور کر دیا گیا۔ 
اپنے تھانے میں جرائم پیشہ افراد کی گرفتاریوں، پولیس کے چھاپوں اور ٹریننگز کی ٹک ٹاک ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرنا اس اہلکار کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔
تاہم ان ویڈیوز کی دیکھا دیکھی یونیفارم میں ملبوس اہلکاروں نے بھی اپنی ذاتی تشہیر کے لیے ٹک ٹاک اکاؤنٹس بنا لیے۔
حکومتی پابندی کے بعد نہ صرف یونیفارم میں سوشل میڈیا ویڈیوز بنانے سے روک دیا گیا ہے بلکہ سرکاری تشہیر کے لیے مختص کی گئی ٹک ٹاک ٹیموں کو بھی ختم کر کے اہلکاروں کو پولیس لائنز میں واپس بلا لیا گیا ہے۔
ترجمان لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پالیسی پر نظر ثانی کے بعد یہ واضح احکامات ہیں کہ وردی میں ملبوس کوئی بھی افسر یا اہلکار ٹک ٹاک یا اس سے مِلتے جُلتے کسی بھی پلیٹ فارم پر ذاتی تشہیر نہیں کرے گا۔‘
 ترجمان کے مطابق ’پولیس کے اچھے اقدامات کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا ڈیسک سمیت جو ٹیمیں کام کر رہی ہیں وہ اپنا کام جاری رکھیں گی۔‘

 ’پولیس کے اچھے اقدامات کی تشہیر کے لیے جو ٹیمیں کام کر رہی ہیں وہ اپنا کام جاری رکھیں گی‘ (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعلٰی مریم نواز کے حلف اٹھانے کے بعد سے اُن کی سوشل میڈیا ٹیمیں ٹک ٹاک ویڈیوز جاری کرنے میں خاصی متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن انہیں ٹک ٹاک کی وزیراعلٰی کا لقب بھی دے چکی ہے۔
اپنی ایک تقریر میں مریم نواز نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب عوام کے لیے کام اچھے کیے جا رہے ہوں گے تو ٹک ٹاک تو بنیں گی ہی۔‘
کئی دہائیوں سے جرائم کی خبروں کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی سید مشرف شاہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’گذشتہ چند ماہ کے دوران کئی ایسے پولیس افسران ہیں جن کی صبح سے شام تک کئی کئی ٹک ٹاک ویڈیوز آرہی تھیں۔‘
’خود آئی جی پنجاب کی میڈیا ٹیم بھی کافی متحرک تھی۔ اب یہ صورت حال ہو گئی تھی کہ افسران نے اپنی کُھلی کچہریاں فیس بُک پر لائیو چلانا شروع کر دی تھیں جس میں صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ یہ سب کچھ مقبولیت کے لیے کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ٹک ٹاک پر ویڈیوز کی بھرمار تھی۔ کئی افسران کے دفتر آنے جانے اور گاڑی میں بیٹھنے سے لے کر ہر چیز ریکارڈ کر کے ویڈیوز شیئر کی جا رہی تھیں۔‘
’اس صورت حال پر محکمے کے اندر ہی اس معاملے پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں اور پھر لوگوں نے اس پر لکھنا بھی شروع کر دیا۔ اس طرح ایک پریشر بنا اور پھر باقاعدہ پالیسی بنا کر اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔‘

شیئر: