ضلعی ایجوکیشن آفیسر مظفر علی خان نے وائرل ویڈیوز اور بچوں کے سکول سے اخراج پر انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور گورنمنٹ شہید نواب علی سینٹینئیل ماڈل ہائی سکول چکیسر کے ہیڈماسٹر شرافت علی اور گورنمنٹ مڈل سکول برپاؤ کے ہیڈ ماسٹر رشید علی کو ایک ہفتے میں رپورٹ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ شرافت علی کو انکوائری کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں چار طالب علموں کو ایک کلاس روم میں پشتو گانے پر رقص کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو سکول انتظامیہ نے عوامی شکایات کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبا کو سکول سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا۔
ذرائع نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ انتظامیہ نے بچوں کو سکول سے خارج کرتے ہوئے ’بیڈ کریکٹر سرٹیفیکیٹ‘ بھی دیے جس کے بعد وہ اب کسی بھی سکول میں داخلہ لینے کے لیے اہل نہیں رہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مظفر علی خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مگر ایسی خبروں کی تردید کی اور کہا کہ ’ان چار طالب علموں نے 14 اگست کے موقع پر کلاس روم خالی پا کر ایک ویڈیو بنائی تھی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ سکول انتظامیہ نے جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے بچوں کو سکول سے خارج کر دیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم بیڈ کریکٹر سرٹیفیکیٹ سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’سکول انتظامیہ کی اس کارروائی پر سخت ایکشن لیا گیا ہے اور بچوں کو دوبارہ داخل کرایا جائے گا۔ ہم نے سکول انتظامیہ کو آگاہ کر دیا ہے کہ یہ ایک معمولی غلطی ہے اور اس کی سزا سکول سے اخراج نہیں ہوسکتی۔ گھر میں اگر بچے غلطی کریں تو انہیں گھر سے نکالا نہیں جاتا بلکہ انہیں سمجھایا جاتا ہے۔‘
سکول انتظامیہ نے بچوں کے اخراج سے متعلق ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کی ہے۔ اس ویڈیو میں پرنسپل جمیل احمد بتا رہے ہیں کہ ان بچوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے جس کے باعث سکول کی بدنامی ہوئی اس لیے انہیں سکول سے خارج کیا جا رہا ہے۔
ویڈیو میں جمیل احمد کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’ان بچوں سے سکول کا بیج اور بیلٹ ضبط کر کیا گیا ہے جبکہ کتابیں بھی واپس لے لی گئی ہیں۔‘
سکول انتظامیہ کی یہ ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو اسی علاقے میں ایک اور سرکاری تعلیمی ادارے، شہید نواب علی سینٹینئیل ماڈل ہائی سکول چکیسر کے پرنسپل اور ماہر تعلیم شرافت علی بھی متحرک ہوئے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افیسر نے بعد میں انہیں ہی انکوائری کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا۔
شرافت علی نے بتایا کہ ’انہوں نے ان بچوں کو اپنے سکول میں داخل ہونے کی پیشکش کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سکول میں زیر تعلیم طالبات کے والدین نے تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے بعد سکول انتظامیہ کو یہ قدم اٹھانا پڑا تاکہ بچے محتاط ہوجائیں لیکن ویڈیو بنانا کوئی ایسی غلطی نہیں کہ بچوں کو سکول سے خارج کر دیا جائے۔ ہمارے سکول کے دروازے ان بچوں کے لیے کھلے ہیں۔‘
شرافت علی نے مزید بتایا کہ ’سکول میں اساتذہ مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ بچوں میں مختلف چیزوں سے متعلق آگاہی پیدا کی جا سکے۔ یہ جدید دور ہے اور اس دور میں بچوں کو کیسے رہنا ہے اس حوالے سے بچوں کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس معمولی غلطی پر بھی بچوں کو سمجھایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ انہیں سکول سے خارج کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے جب کہ کتابیں اور دیگر سامان ضبط کرنا بھی مناسب نہیں کیوں کہ یہ چیزیں سکول کی نہیں بلکہ بچوں کی ملکیت ہیں۔‘
اہلِ علاقہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’علاقہ مکینوں نے ٹک ٹاک ویڈیوز اور بچوں کے اخراج سے متعلق جرگہ بھی بلایا ہے۔‘
شرافت علی نے بتایا کہ ’اس وقت علاقے کے مشران نے سکول انتظامیہ اور بچوں کے والدین کو جرگے میں مدعو کیا ہے جہاں یہ بچے معافی مانگیں گے اور ان کا سکول میں داخلہ بحال کر دیا جائے گا۔‘
گورنمنٹ ہائی سکول دنہ کول کے پرنسپل جمیل احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ وہ اس وقت جرگے میں موجود ہیں جس میں بچوں کے والدین بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ’بچے اپنے اس عمل پر شرمندہ ہیں اور معافی مانگ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ فیصلہ میرٹ پر ہو۔‘
چکیسر تحصیل کے ایک رہائشی اور تعلیمی محاذ پر سرگرم ایک مشہور شخصیت نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے۔ دراصل یہ صرف ایک ویڈیو کی بات نہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی ویڈیوز ٹک ٹاک پر اپلوڈ ہوتی رہی ہیں جن میں ایک طالب علم کو طالبہ کے ساتھ ویڈیو بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیوز کشر خان نامی ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کی گئیں۔‘
اردو نیوز کے پاس دستیاب ان ویڈیوز میں اسی سکول کے ایک طالب علم کو طالبہ کے ساتھ ویڈیو بناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان ویڈیوز میں یہ طالب علم ایک طالبہ کے ساتھ رومانی انداز میں دکھائی دے رہا ہے جبکہ ایک ویڈیو میں طالبہ عقب میں کھڑی ہے اور یہ طالب علم ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ طالب علم 14 اگست کو ریکارڈ کی گئی ان چار طالب علموں کی ویڈیو میں بھی موجود ہے۔
چار طبا میں سے ایک کا نام کامران ہے جو گورنمنٹ ہائی سکول دنہ کول تحصیل چکیسر میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے والد محمد عثمان اس وقت جرگے میں موجود ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرا بیٹا کلاس مانیٹر ہے اور وہ پڑھائی میں بھی سب سے آگے ہے۔ ویڈیو میں میرا ایک بیٹا اور ایک بھتیجا موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا بیٹا کیسے اس ڈانس والی ویڈیو میں آگیا لیکن ہم سب جرگے کے سامنے معافی مانگیں گے اور درخواست کریں گے کہ ہمارے بچوں کو دوبارہ داخلہ دیا جائے۔‘
محمد عثمان کے مطابق اس وقت جرگے میں ’کشر خان‘ نامی طالب علم کی ویڈیوز سے متعلق بات ہو رہی ہے جن پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ علاقے کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں اور کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ویڈیو میں موجود طالبہ کون ہے؟ تاہم ہم اپنے بچوں کی غلطی پر معذرت خواہ ہیں۔
پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول دنہ کول جمیل احمد نے کہا کہ ’طالبات کے ساتھ ویڈیو بنانے والا طالب علم بھی اسی سکول میں زیر تعلیم تھا جسے ماضی میں بار بار وارننگ دی گئی تھی۔‘
ان کے مطابق کشر خان نامی اکاؤنٹ پر اَپ لوڈ کی گئی ویڈیوز سکول کی حدود میں ریکارڈ نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان کا سکول سے کوئی تعلق ہے۔