Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹک ٹاکروں کی حکومت‘ پنجاب میں ’شہ خرچیوں‘ پر تنقید کی زد میں

وزیراعلٰی اور کابینہ کے دفاتر اور آمدورفت کے لیے اخراجات کی مد میں دو ارب 11 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلٰی مریم نواز نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیوروکریسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی۔ 
نگراں دورِ حکومت میں تعینات کی گئی بیوروکریسی کو ملنے والی مراعات کو بھی ویسے ہی بحال رکھا گیا ہے۔
مریم نواز کی حکومت اس وقت اس بات پر تنقید کی زد میں ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کو مزید مراعات کیوں دی جا رہی ہیں؟
حال ہی میں پنجاب میں بیوروکریٹس کے لیے ایک شاہانہ میس، ججوں کو مکان بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضے اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے لیے نئی گاڑیوں کی منظوری دی گئی ہے۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پنجاب حکومت کے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی سے معلومات اکٹھی کی ہیں کہ کیا موجودہ حکومت واقعی بیوروکریسی اور دیگر کو ایسی مراعات دے رہی ہے جن کا کوئی جواز نہیں ہے اور یہ کہ قومی خزانے پر اِن کا کتنا بوجھ ہے؟
سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت ڈی ایچ اے لاہور میں صوبے کے گریڈ 20 ،21 اور 22 کے افسران کے لیے دو ارب روپے کی لاگت سے 29 نئے گھر بنا رہی ہے۔ 
اس میں ہر گھر کا رقبہ دو کنال ہے، تاہم اس کی منظوری پنجاب کی سابق نگراں حکومت کے دور میں دی گئی تھی اور موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو جاری رکھا ہے۔
ڈی ایچ اے میں ہی نیا جی او آر بنانے کے لیے 20ویں گریڈ سے نیچے کے افسران کے لیے 127 نئے گھروں کی سمری ایوانِ وزیراعلٰی بھیجی جا چکی ہے، تاہم ابھی اس کی منظوری آنا باقی ہے۔
سرکاری دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صوبے میں سرکاری افسران کو رہائش کی شدید قِلت کا سامنا ہے اور اس وقت گریڈ 17 اور 18 کے تین ہزار سے زائد افسران ایسے ہیں جن کو رہائش دی نہیں جا سکی۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں سرکاری افسران کی سب سے پُرانی رہائش گاہ جی او آر ون کے میس ہال کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ 

سپیکر پنجاب اسمبلی نے گذشتہ ہفتے اپنے لیے 10 کروڑ روپے مالیت کی نئی گاڑی کی منظوری دی (فائل فوٹو: پنجاب اسمبلی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی منظوری بھی سابق نگراں حکومت کے دور میں دی گئی، تاہم پنجاب حکومت نے موجودہ بجٹ میں جی او آر ون میں ہی وزیرِاعلٰی ہاؤس، وزرا، بیوروکریٹس اور ججوں کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کی رقم رکھی ہے۔ 
اسی طرح جی او آر ون میں سرکاری رہائش گاہوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 8 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ صرف ایوانِ وزیراعلٰی کی مُرمت کے لیے 7 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعلٰی اور کابینہ کے دفاتر اور آمدورفت کے لیے اخراجات کی مد میں دو ارب 11 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
اسی بجٹ میں ججوں کے لیے بھی ایک سکیم رکھی گئی ہے جس میں انہیں اپنے مکانات خود تعمیر کرنے کے لیے فی کس ایک ارب روپے کا قرضہ دیا جا سکے گا۔
یہ سکیم سابق وزیراعلٰی پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں بجٹ میں شامل کرنے کے لیے منظور کی گئی تھی۔
اس وقت اس سکیم کے تحت قرضے کی حد 50 کروڑ روپے رکھی گئی تھی جسے اب بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں لاہور میں موجود تاریخی عمارت پُونچھ ہاؤس کو ’ڈپٹی کمشنر ہاؤس‘ میں تبدیل کرنے کے لیے اِس کی تزئین و آرائش کے لیے 39 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

پنجاب حکومت ڈی ایچ اے لاہور میں سرکاری افسران کے لیے دو ارب روپے کی لاگت سے نئے گھر بنا رہی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے گذشتہ ہفتے اپنے لیے 10 کروڑ روپے مالیت کی نئی گاڑی کی منظوری دی تھی۔ 
اسی طرح ڈپٹی سپیکر کے لیے دو کروڑ روپے مالیت کی گاڑی کی منظوری دی گئی ہے۔ ان گاڑیوں کی منظوری پنجاب اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے دی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رہنما ملک احمد خان بھچر نے حکومت کی شاہ خرچیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ٹک ٹاکروں کی حکومت ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ حکومتی خزانے کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ یہ وہی بیوروکریسی ہے جس سے مل کر انہوں نے فروری میں فارم 45 تبدیل کیے تھے۔ آپ دیکھیں کہ ابھی تک نہ تو پنجاب کا نیا چیف سیکریٹری اور نہ ہی نیا آئی جی لگایا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں اور یہ شاہ خرچیوں میں مصروف ہیں۔ ڈی ایچ اے میں پہلی بار مہنگے ترین گھر بنائے جا رہے ہیں۔ ان کو اس بات پر شرم آنی چاہیے۔‘
پنجاب کی وزیرِ اطلاعات اعظمیٰ بخاری اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’سرکاری عمارتوں کی مرمت اور روزمرہ کے اخراجات ہمیشہ سے بجٹ میں شامل کیے جاتے ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہماری حکومت اس وقت کفایت شعاری پر چل رہی ہے، کئی محکمے خزانے پر بوجھ ہیں جنہیں سِرے سے ختم کیا جا رہا ہے۔‘
صوبائی وزیر اطلاعات کے مطابق ’جب یہ عمل مکمل ہو جائے گا تو اس کے مندرجات عوام کے سامنے لائیں گے۔ نئی سرکاری رہائش گاہوں کی منظوری ہماری حکومت سے پہلے دی گئی تھی۔‘

شیئر: