سری لنکا کے نومنتخب مارکسسٹ صدر کا ملکی تاریخ دوبارہ لکھنے کا عہد
سری لنکا کے نومنتخب مارکسسٹ صدر کا ملکی تاریخ دوبارہ لکھنے کا عہد
اتوار 22 ستمبر 2024 19:28
انورا کمارا نے 2004 میں اپنی جماعت جے وی پی کی قیادت سنبھالی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
سری لنکا کے نومنتخب مارکسسٹ صدر انورا کمارا ڈسانائیکا کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جس نے دو ناکام بغاوتوں کی قیادت کی اور جو چی گویرا کو اپنے ہیروز میں شمار کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2022 کے معاشی بحران کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں کو عوام نے مسترد کرتے ہوئے ایک مزدور کے 55 سالہ بیٹے انورا کمارا کو 42.31 فیصد ووٹوں سے جتوا دیا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 1948 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سے حالیہ مالی بحران ملکی تاریخ کا بدترین بحران تھا۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد نو منتخب صدر انورا کمارا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ’یہ ہم سب کی جیت ہے۔۔۔ ایک ساتھ ہو کر ہم سری لنکا کی تاریخ دوبارہ لکھنے کو تیار ہیں۔‘
مالی بحران کے دوران جہاں ایک طرف عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا وہیں انورا کمارا اور ان کی جماعت پیپلز لبریشن فرنٹ کی شہرت بھی عوام میں بڑھتی گئی۔
نو منتخب صدر نے اپنی پارٹی مینیفیسٹو میں لکھا تھا ’پہلی مرتبہ سری لنکا کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں گوورننس چند کرپٹ ایلیٹ فیملیز کے کنٹرول سے لوگوں کی حکومت کو منتقل ہوگی۔‘
پیپلز لبریشن فرنٹ (جے وی پی) نے جب 1980 کی دہائی میں ناکام بغاوت کی کوشش کی تو اس وقت انورا کمارا طلبا تنظیم کے رہنما تھے۔
انہوں نے 2004 میں پارٹی کی قیادت سنبھالی اور اعلان کیا کہ ان کی جماعت آئندہ کبھی بھی ہتھیار نہیں اٹھائے گی۔
سال 2020 کے پارلیمانی انتخابات میں جے وی پی نے چار فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔
انورا کمارا کا ’کرپٹ سیاسی کلچر‘ کو تبدیل کرنے کا وعدہ ہی مالی مشکلات سے دوچار عوام کی آواز بن گیا ہے۔
پیر کو انورا کمارا کولمبو میں نوآبادیاتی دور کے صدارتی سیکریٹریٹ میں عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
انورا کمارا ڈسانائیکا کے دارالحکومت کولمبو میں واقع دفتر کی دیواروں پر کومیونسٹ رہنما کارل مارکس، ولادیمیر لینن، فریڈرک اینگلز اور فیڈل کاسٹرو کی تصاویر آویزاں ہیں۔
جے وی پی نے پہلی مرتبہ سنہ 1971 میں دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم سریما بندرانائیکی کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف بغاوت شروع کی تھی۔ پارٹی کے جنگجو ’چی گویرا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ لڑائی اگرچہ مختصر تھی لیکن اس میں 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
جماعت کی دوسری مسلح جدوجہد 1987 میں حکومت کے اس منصوبے کے خلاف تھی جو پڑوسی ملک انڈیا کی ثالثی میں طے پایا تھا اور جس کے تحت اقلیتی تاملوں کو سیاسی اقتدار منتقل کرنا تھا۔
اس دوسری مسلح جدوجہد کے دوران اکثریتی سنہالی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے انورا کمارا ڈسانائیکا طلبا جماعت کے سرگرم رکن تھے۔
ے انورا کمارا نے اس وقت کے واقعات دہراتے ہوئے بتایا تھا کہ حکومت کے حمایت یافتہ ڈیتھ سکواڈز سے بچانے کے لیے ان کے ایک استاد نے انہیں ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے لیے اپنے گھر میں چھپائے رکھا تھا۔
انورا کمارا کے مطابق ان ڈیتھ سکواڈز نے جے وی پی کے کارکنوں کو مار ڈالا تھا اور عوامی مقامات پر ان کی لعشوں کو آگ لگا کر جلایا تھا۔
غیرسرکاری اندازوں کے مطابق جے وی پی کی دوسری مسلح جدوجہد میں تقریباً 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مرکزی دھارے میں آنے اور عوام میں شہرت میں اضافے کے بعد انورا کمارا کی چند پالیسیوں میں نرمی آئی ہے۔ وہ اوپن معیشت پر یقین رکھتے ہیں اور نجکاری کے مکمل خلاف نہیں ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’ہماری ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے مہم چلائی جا رہی ہے کہ ہم ہر چیز کو نیشنالائز کر دیں یہاں تک کہ گائے کو بھی۔‘
انورا کمارا اور ان کی جماعت نے 1987 کے بعد سے انڈیا کے ساتھ حالات بہتر کر لیے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ چین کے بھی قریب سمجھے جاتے ہیں۔