Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم پر سپیشل یونٹ کیسے کام کر رہا ہے؟

پولیس کے مطابق ستمبر کے مہینے تک 2881 ملزمان پکڑے گئے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
وہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے ڈیفنس میں ایک بڑے گھر میں کام کرتی تھیں۔ ان کی عمر صرف 16 برس تھی۔ عارفہ (فرضی نام) کا جسم قدرے پتلا تھا۔ گذشتہ مہینے گھر کے مکینوں کو عارفہ کے جسم میں کچھ تبدیلیوں کا احساس ہوا تو انہوں نے عارفہ سے بات کی لیکن وہ انہیں کچھ نہیں بتا رہی تھیں۔
یہ کہانی اردو نیوز کو لاہور ڈیفنس سرکل کے خواتین کے خلاف خصوصی جنسی جرائم کی بابت کام کرنے والے  سپیشل سیکشوئل آفینسز یونٹ (ایس ایس او آئی یو) کی سربراہ عائشہ اعظم نے سنائی۔
اس واقعے سے  متعلق مزید بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ساہیوال سے ان کے گھر والوں کو بلا لیا۔ اور جب اس کی والدہ آئی تو بات کھلی۔ ان لوگوں کا شک درست تھا وہ حاملہ تھی۔ اور اس کو اسی گھر کا ایک ڈرائیور ریپ کر رہا تھا۔ اور وہ ڈر کے مارے یہ بات کسی کو بتا نہیں رہی تھی۔‘
عائشہ اعظم نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد گھر والوں کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا۔ ہم نے ملزم کو گرفتار کیا اور اس سے تفتیش کی اور اب اسے جیل بھجوا دیا ہے۔ عارفہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئی ہے۔ اور ابھی ان کے مسائل کم نہیں ہوئے کیونکہ بچہ اب بھی لڑکی کے پیٹ میں ہے۔ ملزم کو سزا دلوانے کے لیے پولیس نے ثبوتوں کے ساتھ کیس تیار کر لیا ہے۔‘
لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے انچارج ایس ایس او آئی یو صفدر علی جنہوں نے حال ہی میں ایک کیس حل کیا ہے جس میں ایک 16 سالہ لڑکی فائزہ (فرضی نام) کے اغوا کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
انہوں نے اس واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’لڑکی کے اغوا کی ایف آئی آر درج ہوئی تو کیس سپیشل سیکشوئل آفینسز یونٹ اقبال ٹاؤن کے سپرد کر دیا گیا۔ ہم نے لڑکی کے موبائل فون ڈیٹا ریکارڈ سے اس معاملے کی کھوج کا آغاز کیا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے صفدر علی نے بتایا کہ ’جلد ہی ہمیں ایک نمبر ملا جس پر سب سے زیادہ کالز کی گئی تھیں اور اس نمبر پر اگست کے مہینے سے لڑکی کا لگا تار رابطہ تھا۔ یہ ایک محمد طارق نامی شخص تھا جس کی عمر 45 سال تھی۔ ہم نے اسے حراست میں لے لیا۔ تو پوری کہانی کھلی۔ اس نے 22 سالہ لڑکا بن کر دھوکے سے اس لڑکی کو اپنا دوست بنایا۔ اور ایک مہینے میں ہی اس کے خاندان سے متعلق ساری معلومات لینے کے بعد اسے ورغلا کر گھر کی جمع پونجی جو آٹھ لاکھ روپے لے کر آنے کو کہا اور جھانسہ دیا کہ وہ شادی کرے گا۔‘

ڈاکٹر انوش مسعود نے کہا کہ خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم ہمارے لیے ریڈ لائن ہیں۔ (فائل فوٹو)

پولیس رپورٹ کے مطابق محمد طارق لڑکی سے پیسے ہتھیا کر غائب ہو گیا۔ ’اس نے ہمیں بتایا کہ جیسے ہی اس کا آمنا سامنا ہوا اور لڑکی کو پتا چلا کہ یہ شخص اس کے باپ کی عمر کا ہے اور اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے تو اس نے پیسے ہتھیا لیے جو اس سے ہم نے ریکور بھی کر لیے ہیں۔ تاہم لڑکی اس سے دل برداشتہ ہو کر واپس گھر جانے کے بجائے کہیں اور نکل گئی۔ جو کہ بعد میں رحیم یار خان سے برآمد ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہا ’تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس ملزم کی اپنی بیٹی کی عمر 20 سال ہے۔ ہم نے کیس حل کر لیا ہے اور فائزہ اب اپنے گھر والوں کے ساتھ ہے۔ ملزم جیل میں ہے۔‘
خیال رہے کہ پنجاب میں خواتین کے خلاف جرائم کے لیے جینڈر سیل کے نام سے ایک علیحدہ انویسٹی گیشن ونگ کام کر رہا تھا۔ تاہم اب اس کا سکوپ بڑھا کر اس میں ترمیم کرتے ہوئے اسے سپیشل سیکشوئل آفینسز انویسٹی گیشن یونٹ (ایس ایس او آئی یو) کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں خواتین اور بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر فاسٹ ٹریک تفتیش کے لیے افسران اور عملہ مختص کیا گیا ہے۔
کم عمر لڑکیاں آسان ہدف
ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور ڈاکٹر انوش مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو ہم بہت زیادہ سیریس لیتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ہماری ریڈ لائن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان جرائم کی تفتیش عام طریقے سے نہیں کی جاتی جہاں تاخیر کا احتمال ہوتا ہے۔‘
’ہمارے ایس ایس او آئی یو کے تفتیشی افسران خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ اور ان کی کارکردگی مثالی ہے۔ اور ان کو یکسوئی کے ساتھ ایک ہی طرح کے کیسز کو حل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے تفتیش کاروں نے دوسرے صوبوں سے بھی بچے اور خواتین ریکور کی ہیں۔‘

حالیہ برسوں میں ریپ کیسز اور گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف احتجاج کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ کم عمر خواتین کے اغوا کے کیسز زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں کیونکہ اس کی بڑی وجہ ان کو ورغلانا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور وہ آسان ہدف ہوتی ہیں۔
’ملزمان یہ سمجھتے ہیں کہ شاید رضامندی کا لیبل لگا کر وہ قانون کی گرفت سے بچ جائیں گے، لیکن قانون اس کے برعکس ہے۔ 18 سال سے کم عمر لڑکی کی رضامندی قانون کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ نابالغ ہے۔‘
ایس ایس او آئی یو لاہور کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال 2024 میں ستمبر کے مہینے تک 2881 ایسے ملزمان پکڑے گئے جن پر خواتین اور بچوں کے اغوا کے الزامات ہیں۔ جبکہ ریپ اور گینگ ریپ کے 510 ملزمان اب تک گرفتار کیے گئے ہیں۔ اور خواتین کی ہتک عزت کے 950 ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں۔

شیئر: