Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کی ’انڈر ورلڈ وار‘: کیا کوئی تیسرا گینگ بھی متحرک ہو گیا ہے؟

رواں برس فروری میں لاہور کے انڈر ورلڈ سے تعلق رکھنے والے امیر بالاج فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں گذشتہ چند ماہ کے دوران مبینہ طور پر انڈرورلڈ سے منسلک یکے بعد دیگرے تین افراد کے قتل کے بعد پولیس سر جوڑے بیٹھی ہے کہ اس جنگ کو کیسے رکوایا جائے۔
ٹرکاں والا گروپ کے امیر بالاج ٹیپو کی ہلاکت کے بعد اس قتل میں ملوث ان کے قریبی دوست احسن شاہ جیل سے تو نکلے مگر پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
اسی طرح مخالف گروپ کے سربراہ طیفی بٹ کے بہنوئی جاوید بٹ کو چند ہفتے قبل بچوں کو سکول سے گھر لاتے ہوئے ایف سی انڈر پاس کے قریب فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
سی آئی اے لاہور کے ایک سابق سب انسپکٹر ظہیر الدین بابر نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ’جاوید بٹ کا قتل ایک تیسری قوت نے کروایا ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں ان دونوں گینگز کو بہت قریب سے جانتا ہوں، اور میں یہ بات دعوے سے کہہ رہا ہوں کہ جاوید بٹ کا قتل محض لاہور گینگ وار کو ہوا دینے کے لیے کیا گیا ہے۔‘
ظہیر الدین بابر کے مطابق ’اس کا فائدہ ایک تیسری قوت اُٹھا رہی ہے اور اس معاملے میں کاروباری رقابت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ چند دنوں میں جب اس کیس کی تفتیش مکمل ہو گی تو یہ بات سامنے آجائے گی۔ اس قتل کو ٹرکاں والا گروپ پر اس لیے ڈالا گیا ہے کیونکہ سب سے منطقی بات بظاہر یہی نظر آتی ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’یہ تیسرا گروپ جو وجود میں آیا ہے وہ ان دونوں دھڑوں کا متاثرہ گروپ ہے۔ خاص طور پر طیفی بٹ گروپ کا، اور اس نے اپنا حساب برابر کیا ہے،‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس نئے گینگ میں کون کون شامل ہے۔
پولیس کی تفتیش کہاں تک پہنچی ہے؟
جاوید بٹ قتل کیس میں پولیس نے دو شُوٹرز گرفتار کر لیے ہیں جنہیں خیبر پختونخوا کے علاقے درہ آدم خیل سے پکڑا گیا ہے۔
 اس تفتیش سے منسلک ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ چونکہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے اس لیے پہلے دن سے ہی جیوفینسنگ کے ذریعے چار افراد کو ٹریک کیا گیا جو جائے واردات پر موجود تھے۔ 
ان میں سے دو شُوٹرز اظہر اور الیاس موٹرسائیکل جبکہ ریکی کرنے والے دو افراد افضل اور عارف رکشے میں سوار تھے۔ اظہر اور الیاس اس قتل کے بعد اپنے اہل خانہ سمیت نتھیا گلی چلے گئے اور چند دن وہیں رہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’امیر بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم احسن شاہ اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے‘ (فائل فوٹو:پنجاب پولیس)

پولیس افسر نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم نے گھیرا مزید تنگ کیا تو دو ملزمان اپنی فیملیز کو لاہور بھیج کر خود ایبٹ آباد چلے گئے۔‘
’پولیس نے اہل خانہ سے بھی پوچھ گچھ کی۔ اس بات کا پتا چلتے ہی یہ دونوں ملزمان درہ آدم خیل پہنچ  گئے جو پہلے ہی گیم پلان کا حصہ تھا۔‘
پولیس تعاقب میں تھی اور دونوں کو وہاں سے گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے پانچ پانچ لاکھ روپے اور ایک ایک گھر کے لالچ میں یہ قتل کیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ان دونوں ملزمان کی گرفتاری کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ انہیں سُپاری دینے والے افضل نامی شخص کی گرفتاری زیادہ ضروری ہے۔‘ 
پولیس افیسر نے بتایا کہ ’افضل کا تعلق قصور کے علاقے سے ہے اور جب پولیس نے اس کا تعاقب کیا تو اس نے ایک بڑے سیاست دان کے ذریعے اپنی گرفتاری دے دی۔‘ 
’تاہم یہاں پولیس پھر بند گلی میں چلی گئی کیوں کہ افضل نے آگے عارف نامی ایک شخص کا بتایا جو تاحال گرفتار نہیں ہوا۔‘
قتل پہلے سے جاری گینگ وار کا تسلسل
ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ عمران کشور کہتے ہیں کہ پولیس کو اب تک جتنے شواہد حاصل ہوئے ہیں ان میں یہ بات اس طرف ہی جا رہی ہے کہ یہ قتل پہلے سے جاری گینگ وار کا ہی حصہ ہے۔

پنجاب پولیس کے مطابق ’طیفی بٹ کے بہنوئی کا قتل پہلے سے جاری گینگ وار کا ہی حصہ ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے تین ملزمان گرفتار کرلیے ہیں اور ان سے بہت اہم معلومات ملی ہیں جس کی بنیاد پر ہم تفتیش کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ اندھا قتل نہیں تھا۔‘
’پولیس اس کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ یہ ایک مشکل کیس تھا اور کئی مواقع پر پولیس کی توجہ اصل شواہد سے ہٹانے کی کوشش بھی کی گئی۔‘
پولیس تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اصل پلان کے مطابق پکڑے گئے دونوں ملزمان کو درہ آدم خیل میں دو نئے شُوٹرز سے قتل کروایا جانا تھا تاکہ ثبوت مکمل طور پر ختم ہو جائیں جیسا کہ امیر بالاج کیس میں ہوا۔
کیس کی تفیش سے منسلک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’اس ساری چین میں پولیس کو مطلوب عارف نامی شخص کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ٹرکاں والا گروپ کے ایک رکن قیصر بٹ کا ذاتی ملازم ہے، تاہم اس کی گرفتاری اور تفتیش تک اس پر مزید بات نہیں کی جا سکتی۔‘
’ایسے شواہد موجود ہیں کہ کچھ دیگر افراد بھی اس گینگ وار سے فائدہ اٹھانے کے لیے پر تول رہے تھے، تاہم اس کیس کی اب تک کی تفتیش سےاس قتل کا سِرا ٹرکاں والا گروپ کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

شیئر: