Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اولڈ راوین دیو آنند، ’کلرک بابو‘ سے بالی وُڈ کے ’ایور گرین‘ ہیرو تک

دیوآنند نے لگے بندھے اصولوں کے مطابق فلمیں نہیں بنائیں بلکہ اُن کی فلموں میں تنوع ہے (فائل فوٹو: دی سٹیس مین)
شہرِ پُرکمال لاہور کی علمی و تہذیبی روایات اگرچہ بے ہنگم ٹریفک کے دھوئیں اور کنکریٹ کے بڑے بڑے ڈھانچوں میں دھندلا گئی ہیں مگر کبھی یہ شہر پورے خطے میں علم و تہذیب اور انقلاب و رومان کا مرکز تھا۔
19 ویں صدی کے اوآخر میں بلند فصیلوں سے باہر پھیلتے شہر لاہور میں کچھ نئی عمارتوں کا اضافہ ہوا جن میں گورنمنٹ کالج لاہور کی گوتھک طرزِ تعمیر کی وہ شاہکار عمارت بھی شامل ہے جسے غیرمنقسم ہندوستان کی عظیم ترین درس گاہوں میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اس عظیم ادارے میں بے سروپا موضوعات پر لیکچر نہیں دیے جاتے تھے اور نہ ہی طالب علموں کی فکری آزادیوں کو سلب کیا جاتا تھا۔
اُن دنوں ہی شکرگڑھ کا ایک نوجوان اس تعلیمی ادارے سے انگریزی ادب میں گریجویشن کر کے فارغ التحصیل ہوا تو کچھ کر دکھانے کا عزم جواں تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ممبئی (اُس وقت بمبئی) جانا اور فلموں میں کام پانا ہر نوجوان کا خواب تھا، ارمان تھا تو صرف بڑے پردے پر نظر آنے کا۔
بغاوت تو بڑے بھائی چیتن کر ہی چکے تھے۔ آئی سی ایس (انڈین سول سروس) میں ناکام ہوئے تو والد کی مرضی کے خلاف فلمی دنیا میں آئے اور سال 1944 میں ریلیز ہونے والی فلم ’راج کمار‘ میں مرکزی کردار ادا کیا اور انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
یہ چیتن آنے والے دنوں میں چیتن آنند کے نام سے مشہور ہوئے جن کی فلم ’نیچا نگر‘ کینز فلم فیسٹیول میں ’پام ڈی اور’ کا اعزاز حاصل کرنے والی پہلی فلم تھی۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دیو آنند (دھرم دیو پشوری مال آنند) نے جب گورنمنٹ کالج سے آنرز کے ساتھ انگریزی میں ڈگری حاصل کی تو وہ آگے پڑھنا چاہتے تھے، ولایت سے ڈگری لینا چاہتے تھے مگر قدرت نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔
والد پشوری لال آنند گرداس پور ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک جانے مانے وکیل تھے جو چاہتے تھے کہ بیٹا کلرک بابو بن کر اپنی تعلیم کا بوجھ خود اُٹھائے۔

بالی وُڈ کے ٹریجیڈی کنگ دلیپ کمار، عظیم ترین شومین راج کپور اور سٹائل آئیکون دیو آنند پر مشتمل ٹرائیکا چند برس میں بن چکی تھی (فائل فوٹو: دکن کرونیکل)

اداکار اپنی خودنوشت ’رومانسنگ وِد لائف‘ میں کچھ یوں رقم طراز ہیں، ’میرے والد پانچ دریاؤں کی دھرتی پنجاب کے ضلع گرداس پور کے ایک نمایاں وکیل تھے۔ میں نے لاہور کے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں اعزاز کے ساتھ ڈگری حاصل کی۔ یہ اُس عہد کے انڈیا کے چند جدید ترین شہروں میں سے ایک تھا اور کالج کے فارغ التحصیل طالب علم ملک کی نوجوان ’ایلیٹ‘ کہلاتے تھے۔‘
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’میں اسی کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنا چاہتا تھا اور پھر سات سمندر پار ولایت جانے کا خواب تھا جس کے بعد میرا انڈیا کے ان چنیدہ لوگوں میں شمار ہوتا جو بیرونِ ملک سے تعلیم یافتہ ہوتے اور یوں کسی بھی شعبے میں اعلیٰ عہدے کے حق دار قرار پاتے۔‘
والد کانگریس میں تھے، چیتن بھی کانگریس کی سیاست میں سرگرم تھے تو ملازمت ملنا آسان نہیں تھا۔ رائل انڈین آرمی میں کمیشن نہ مل سکا تو پھر اپنی کرنے کی ٹھانی اور جیب میں صرف 30 روپے لیے ممبئی پہنچے اور چند ہی برس میں ہندی فلم کی اُس ’ٹرائیکا‘ کا حصہ بن چکے تھے جس کے ذکر کے بغیر بالی وُڈ کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔
یہ ٹرائیکا بالی وُڈ کے ٹریجیڈی کنگ دلیپ کمار، عظیم ترین شومین راج کپور اور سٹائل آئیکون دیو آنند پر مشتمل تھی۔
یہ عظیم فنکار آج ہی کے دن سال 1923 میں پیدا ہوا۔ ممبئی آنے کے بعد بھی زندگی آسان نہیں تھی۔ بڑے بھائی چیتن بالی وڈ میں قدم جمانے کی سعی کر رہے تھے اور بڑی بریک کے منتظر تھے۔
انڈین روزنامہ ’قومی آواز‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’سال 1943 میں اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے جب وہ (دیو آنند) ممبئی پہنچے تو اس وقت ان کے پاس محض 30 روپے تھے اور ممبئی میں ٹھہرنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ دیوآنند نے یہاں پہنچ کر ریلوے سٹیشن کے قریب ہی ایک سستے سے ہوٹل میں کمرہ کرایے پر لے لیا۔ اس کمرے میں ان کے ساتھ تین دیگر افراد بھی رہتے تھے جو دیو آنند کی طرح فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشش کر رہے تھے۔‘
اولڈ راوین دیو آنند کو جلد ہی ملٹری سنسر بورڈ میں کلرک کی ملازمت مل گئی جہاں وہ فوجیوں کے خطوط اُن کے گھر والوں کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ اس ملازمت سے مگر جلد ہی جی اوب گیا تو بھائی چیتن کے پاس چلے گئے اور ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے۔

دیو آنند اپنی فلموں ’موہن‘، ’آگے بڑھو‘ اور ’وِدیا‘ کی ناکامی کے بعد بھی جدوجہد کرتے رہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

سال 1946 میں دیو آنند صرف تین ہی برسوں میں ’کلرک بابو‘ سے چکاچوند کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے جب اُن کی فلم ’ہم ایک ہیں‘ ریلیز ہوئی۔
یہ فلم ہدایت کار وی شانتا رام کی پروڈکشن کمپنی نے بنائی تھی جنہوں نے بعدازاں پونے میں ایک فلم سٹوڈیو بھی قائم کیا جہاں ان دنوں فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ انڈیا کی عمارت قائم ہے۔
دیو آنند اپنی پہلی فلم کی ناکامی سے دل شکستہ نہیں ہوئے بلکہ وہ تو ’موہن‘، ’آگے بڑھو‘ اور ’وِدیا‘ کی ناکامی کے بعد بھی جدوجہد کرتے رہے۔
یہ فلم ’وِدیا‘ ہی تھی جس میں اداکار کے ساتھ اُس عہد کی سپرسٹار ثریا پہلی بار پردے پر نظر آئیں جو آنے والے برسوں میں دونوں کی یادگار پریم کہانی کا ’مرکزی کردار‘ بن گئیں۔ 
ثریا اور دیو آنند کی پریم کہانی میں مذہب رکاوٹ بنا جب کہ فلم ’ودیا‘ میں طبقاتی تفریق کے پس منطر میں دو محبت کرنے والوں کی کہانی میں پیش آنے والی رکاوٹوں کا بیاں تھا۔
ثریا اور دیو آنند کی پریم کہانی ایک چھوٹے سے بریک کے بعد
سال 1948 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ضِدی‘ نے دیو آنند کو بالی وڈ کے صفِ اول کے اداکاروں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
یوں کہہ لیجیے کہ یہ فلم اُن کی ‘جھولی‘ میں آ گِری تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن دیو آنند ٹرین پر سوار ہو رہے تھے جب کسی نے انہیں عقب سے مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا ’کیا تم ممبئی ٹاکیز کی فلم میں کام کرو گے؟‘
یہ ہدایت کار شاہد لطیف تھے جن کے ساتھ اُن کی اہلیہ اور اُردو کی ممتاز افسانہ نگار عصمت چغتائی بھی تھیں۔
دیو آنند کو ممبئی میں رہنے کے لیے کام چاہیے تھے۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور اگلے دن ’ممبئی ٹاکیز‘ پہنچ گئے۔

فلم ’وِدیا‘ ہی تھی جس میں اداکار کے ساتھ اُس عہد کی سپرسٹار ثریا پہلی بار پردے پر نظر آئیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

فلم کے ہدایت کار شاہد لطیف اور کہانی کار عصمت چغتائی تھیں۔ اس فلم کے اداکاروں میں دیو آنند، کامنی کوشل اور پران تینوں ہی لاہور سے تھے۔ یہ فلم کامیاب رہی اور یوں ایک ایسے سٹار کا جنم ہوا جس نے ’ہیرو‘ کے روایتی تصور کو ہی بدل دیا، جس کی اُس وقت نئے آزاد ہونے والے ملک کو ضرورت بھی تھی۔
انڈین نیوز پورٹل ’دی وائر‘ کے لیے سدھارتھ بھاٹیہ لکھتے ہیں کہ ’آنند جی کے دو معاصرین راج کپور اور دلیپ کمار کا اپنا کرزما تھا، اور راج کپور کی ابتدائی فلموں اور بالخصوص ’شری 420‘ میں وہ اگرچہ ایک شہری ماحول کا حصہ ہیں، اُن کا شہر مگر ایک ایسا مقام ہے جہاں کے غریب شریف اور محبت کرنے والے ہیں اور رؤسا اور امراء کرپشن میں لَت پت ہیں اور ہر غلط کام کرتے ہیں۔ دلیپ کمار ذاتی المیوں سے جوجھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بہت زیادہ تفکرات کا شکار رہتے ہیں۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’دیو آنند کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ وہ ایک شہری بابو ہیں اور ان شہروں میں اُن کا کردار جیسا کہ فلموں ’بازی‘،‘ٹیکسی ڈرائیور‘ یا ’ہاؤس نمبر 44‘ میں بہت خوش کن نہیں ہے مگر وہ مسکرا کر زندگی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
فلم ’ضدی‘ کے بعد چیتن آنند اور دیو آنند نے اپنا پروڈکشن ہاؤس ’نیوکیتن فلمز‘ کے نام سے قائم کیا جس نے آنے والے برسوں میں کئی یادگار فلمیں دیں۔ سال 1950 میں فلم ’افسر‘ میں دیو آنند اور ثریا ایک بار پھر ساتھ نظر آئے مگر وہ دونوں برسوں سے ایک دوسرے کو چاہتے آ رہے تھے اور ان دونوں کی محبت اب کوئی راز نہ رہا تھا۔ اور جب دیو آنند نے ثریا کو شادی کی پیشکش کی تو انہوں نے بھاری دل کے ساتھ انکار کر دیا۔

سال 1946 میں دیو آنند صرف تین ہی برسوں میں ’کلرک بابو‘ سے چکاچوند کی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق اداکارہ نے سال 1972 میں فلمی جریدے ’سٹارڈسٹ‘ کو دیے گئے انثرویو میں دیو جی کے ساتھ اپنی پریم کہانی کی تفصیل بیان کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی اکھڑ مزاج نانی سے آنکھ بچا کر دیو جی سے محبت کرتی رہیں۔ وہ کبھی فلم سٹوڈیوز میں ملاقات نہیں کرتے تھے کیوں کہ اداکارہ کی نانی ہمیشہ اُن کے ساتھ ہوتی تھیں اور وہ دونوں ہر جمعرات کو فون پر بات کیا کرتے۔
انہوں نے اس انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ ’وہ (دیو آنند) ہر ہفتے جعمرات کی رات کو کال کرتے۔ میں مقررہ وقت پر یہ یقینی بناتی کہ فون کے قریب رہوں۔‘
تاہم بالی وڈ کی اس پریم کہانی کا دردناک انجام ہوا۔
اداکارہ نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے دیو جی کو کورٹ میں شادی کرنے کی پیشکش کی تھی اور اُن کو قائل کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی تھی۔ انہوں نے اپنی نانی کی جانب سے بین المذاہب شادی پر شدید ردِعمل پر جواں جذبوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’محبت ہی واحد مذہب ہے۔ محبت ہی تو سب کچھ ہے۔ میں تمہیں محبت، احترام اور تحفظ دوں گی اور تم مجھے محبت اور احترام دے سکتے ہو۔‘
لیکن انہوں (دیو آنند) نے اشارتاً کہا کہ مجھے شادی کے بعد اپنا کیریئر چھوڑنا ہو گا۔ اُن کی اس شرط پر میں چونک گئی کیوں کہ میں ایک کامیاب کیریئر نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ میں اپنی نانی سے بھی خوف زدہ تھی جنہوں نے دھمکی دی تھی کہ ’آپ دونوں نے شادی کی تو جیل بھجوا دوں گی۔‘
اداکارہ نے یوں دیو آنند کی پیشکش کو رَد کر دیا۔ انہوں نے مگر ساری زندگی شادی نہیں کی۔
محبت کی یہ کہانی تو کامیاب نہ ہو سکی مگر سال 1951 میں فلم ’بازی‘ کی ریلیز نے فلم بینوں کو ایک نئی طرز کے سینما سے متعارف کروایا۔ یہ بالی وُڈ کی اولین ’کرائم نوئر‘ فلم تھی۔ 
اس فلم کے ہدایت کار گُرو دَت تھے جو دیو آنند کے گہرے دوست تھے۔

سال 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گائید‘ اداکار کے کریئر کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

وہ دونوں اس عہد کے دوست تھے جب دیو آنند بطور ہیرو اپنی اولین فلم پر کام کر رہے تھے جس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر گُرو دَت تھے۔ آنے والے برسوں میں دونوں کی دوستی کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔
دیو جی اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ ’ایک روز اس نے دور سے مجھے مسکرا کر دیکھا اور جانے لگا۔ پھر اچانک مُڑ کر دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں تھی۔ وہ مجھے نہیں بلکہ میری شرٹ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے بھی غور کیا تو لگا جیسے اس نے میری شرٹ پہن رکھی ہے۔ دراصل ہمارے دھوبی نے انجانے میں شرٹوں کی اَدلا بدلی کر دی تھی۔ ہم نے ہنستے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور ہمیشہ کے لیے دوست بن گئے۔‘
فلم ’بازی‘ سے صرف دیو آنند کو ہی بڑا بریک نہیں ملا بلکہ جادوئی دھنیں تخلیق کرنے والے ایس ڈی برمن، گیت نگار ساحر لدھیانوی اور گرو دَت کے لیے بھی اس فلم نے کامیابی کے دروازے کھول دیے۔
آنے والے برسوں میں دیو آنند نے ’جال‘، ‘ٹیکسی ڈرائیور‘، ’انسانیت‘، ’منیم جی‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیئنگ گیسٹ‘، ’کالا پانی‘ جیسی کامیاب فلمیں دیں جب کہ ’منزل‘، ’جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘، ‘ہم دونوں‘، ’اصلی نقلی‘ اور ’تیرے گھر کے سامنے‘ نے دیو آنند کی چھَوی ایک رومانی ہیرو کی بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں اداکار نے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے عہد سے بہت آگے ہیں۔
سال 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’گائید‘ اداکار کے کریئر کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ہے جسے آج بھی پسند کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اس فلم کے گیت،
’کانٹوں سے کھینچ کے یہ آنچل
توڑ کے بندھن باندھے پائل
کوئی نہ روکو دل کی اُڑاں کو
دل وہ چلا، ہا، ہا، ہا
آج پھر جینے کی تمنا ہے
آج پھر مرنے کا ارادہ ہے‘،
یا
’گاتا رہے میرا دل
توں ہی میری منزل‘،
دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی سماعتوں میں رَس گھولتے ہیں۔
شمی کپور سے بہت پہلے یہ درحقیقت دیو آنند تھے جو گیتوں پر اس انداز سے پرفارم کرتے گویا یہ انہیں سامنے رکھ کر ہی تخلیق کیے گئے ہوں۔ اُن کے چہرے پر ہمہ وقت شریر مسکراہٹ رقصاں رہتی، اپنے منفرد ملبوس اور نشیلی چال نے پنجاب کے اس گھبرو جوان کو لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔
’گائیڈ‘ بھی ’نیوکیتن فلمز‘ کے بینر تلے بنائی گئی تھی جس کے ہدایت کار دیو آنند سے 11 برس چھوٹے اُن کے بھائی وجے آنند تھے۔
اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں ہمانشو ڈھولیا لکھتے ہیں ’دیو آنند نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے پروڈکشن ہاؤس نے صرف اچھی فلمیں ہی نہیں بنائیں بلکہ ناقابلِ فراموش گیت بھی دیے ہیں۔ راج کپور کی فلموں کے گیت اگرچہ یادگار ہیں۔ نیوکیتن کے جو گیت ایس ڈی برمن نے دیے ہیں، وہ ان سب میں نمایاں ہیں اور ان کے ساتھ کسی کا موازنہ نہیں۔ برمن کی گیت نگاروں ساحر لدھیانویؔ (فنٹوش، ٹیکسی ڈرائیور، بازی)، مجروح سلطان پوریؔ (کالا پانی، جیول تھیف، نو دو گیارہ)، شیلندرؔ (کالا بازار، گائیڈ)، حسرت جے پوریؔ (تیرے گھر کے سامنے)، نیرجؔ (پریم پُجاری) اور آنند بخشیؔ (ہیرا پنا، ہرے راما ہرے کرشنا، عشق عشق عشق) کے ساتھ تخلیقی شراکت داری نے بے مثال گیت دیے جو آج بھی پسند کیے جاتے ہیں۔‘

دیو آنند نے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط اپنے طویل کریئر میں 100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا (فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

دیوآنند نے لگے بندھے اصولوں کے مطابق فلمیں نہیں بنائیں بلکہ اُن کی فلموں میں تنوع ہے، نیا پن ہے اور وہ موضوع کے اعتبار سے بالی وُڈ کی مسالہ فلموں کی روایت سے تو الگ نہیں رہ سکے مگر انہوں نے کچھ نیا ضرور پیش کیا۔
ٹائمز آف انڈیا کے لیے ہمانشو ڈھولیا لکھتے ہیں ’دیو آنند ایک جدید فکر کے انسان تھے اور اس کا اظہار اُن کی فلموں کے ذیلی موضوعات سے بھی ہوتا ہے۔ ’فنٹوش‘ میں لائف انشورنس کے غلط استعمال کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ ’ٹیکسی ڈرائیور‘ میں شہری انڈیا اور بالخصوص ممبئی میں بے روزگاری کے مسئلے کی کھوج کی گئی ہے۔ ’گائیڈ‘ آزادی کے تصور کو پیش کرتی ہے۔ ’ہم دونوں‘ جنگ کے رشتوں پر اثرات کا بیاں ہے۔
’پریم پُجاری‘ میں امن کے فروغ پر بات کی گئی ہے۔ ’تیرے میرے سپنے‘ میں طب کے شعبے میں کرپشن کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ’کالا پانی‘ میں دکھایا گیا ہے کہ محبت کس طرح انسان کی اصلاح کر سکتی ہے اور ’دیس پردیس‘ میں غیر قانونی ہجرت کو موضوع بنایا گیا ہے۔‘
دیو آنند اور چیتن آنند کے راستے اگرچہ جدا ہو گئے تھے اور چیتن نے ہمالیہ فلمز کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کر لیا تھا مگر دیو آنند کی زندگی میں حقیقی معنوں میں اگر کوئی ’گاڈ فادر‘ تھا تو وہ چیتن آنند ہی تھے۔

دیو جی کا دل بعدازاں اداکارہ زینت امان پر بھی آیا مگر بات آگے بڑھ نہ سکی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

فلم ’بازی‘ میں دیو آنند کے ساتھ ایک اور اداکارہ کلپنا کارتک (مونا سنگھ) نے بھی کام کیا تھا۔ لاہور کے ایک مسیحی خاندان سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کے بارے میں اُس وقت تک کون یہ جانتا تھا کہ ثریا کی ناکام محبت کے صدمے سے جوجھ رہے دیو آنند کی نظرِالتفات کبھی کلپنا پر بھی پڑے گی مگر ایسا ہوا اور دیو جی کا جب ثریا سے رشتہ ٹوٹا تو اُن کی زندگی میں کلپنا آئیں اور وہ دونوں جلد ہی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
انگریزی کے مؤقر اخبار ’ٹائمز‘ کے لیے ڈاکٹر اشتیاق احمد کے مضمون میں یہ ذکر موجود ہے کہ کلپنا کے کچھ رشتہ دار تقسیم کے بعد پاکستان میں ہی رہے اور وہ طویل عرصہ تک لاہور کے علاقے کرشن نگر کے محلے ہرن روڈ پر رہتے رہے۔
دیو جی کا دل بعدازاں اداکارہ زینت امان پر بھی آیا مگر بات آگے بڑھ نہ سکی۔ ان دونوں کی اہم ترین فلم ’ہرے راما ہرے کرشنا‘ ہے۔
اداکار نے اپنی بیتی ’رومانسنگ وِد لائف‘ میں اعتراف کیا ہے کہ ’ایک دن میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے زینت سے محبت ہو گئی ہے۔ میں نے تاج ہوٹل کے ‘ریندیوو‘ ریستوران میں ایک میز بُک کروایا تاکہ انہیں (اپنے احساسات کے بارے میں) بتا سکوں۔ اس سے پہلے ہمیں ایک ساتھ ایک پارٹی میں جانا تھا۔ وہاں زینت کا سب سے پہلے عالمِ مدہوشی میں راج کپور نے استقبال کیا۔‘

دیو جی کا جب ثریا سے رشتہ ٹوٹا تو اُن کی زندگی میں کلپنا آئیں اور وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے (فائل فوٹو: شٹر سٹاک)

وہ مزید لکھتے ہیں ’زینت نے جھُک کر ان کے پاؤں چھونے کی کوشش کی۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ ان کے درمیان زیادہ ہی قربت ہے۔ راج نے زینت کی میرے سامنے سرزنش کی کہ ’تم نے ہمیشہ سفید کپڑے پہننے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔‘
وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’اس کے بعد سے ہی وہ میرے لیے پہلے والی زینت نہیں رہیں۔ میں نے زینت سے کہا کہ آپ لطف اندوز ہوں۔ زینت نے کہا ہمیں کہیں اور جانا تھا۔ میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ میں وہاں سے اٹھا اور باہر آ گیا۔‘
یہ دیو آنند کی زینت امان کے لیے یکطرفہ محبت کا کلائمکس تھا۔
دیو آنند کا ایک اپنا انداز تھا، اُن کی جھکی ہوئی گردن، سر پہ مخصوص ٹوپی، گلے میں رنگین سکارف اور بولتے ہوئے کوئی توقف نہ کرنا اُن کی اداکاری کا ٹریڈ مارک بن گیا تھا اور فلم بین ان کے اس منفرد انداز کے مداح تھے۔
انہوں نے اس بارے میں ایک بار برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دراصل میں جھکتا ہوں، ترچھا چلتا ہوں۔ مجھے فلموں میں لمبے لمبے ڈائیلاگ ملتے تھے اور میں اس مخمصے میں تھا کہ رُکوں یا نہیں۔ تو میں ایک سانس میں بولتا تھا۔ اور یہ دیو آنند کا انداز بن گیا۔‘
بالی وڈ کے سنہری دور کے تین بڑوں دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند کا اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔

بالی وُڈ کی ایک صدی پر محیط تاریخ میں دیو آنند سا کرزما کسی اور اداکار کا نہ تھا (فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

ٹائمز آف انڈیا کے لیے ہمانشو ڈھولیا اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’یہ واضح ہے کہ ان سب کی مہارت مختلف تھی۔ راج کپور ایک غیرمعمولی ہدایت کار تھے جو عوام میں بہت زیادہ مقبول تھے اور دلیپ کمار ہمیشہ ایک اداکار رہیں گے۔ دوسری جانب دیو آنند نے جدید موضوعات پر فلمیں تخلیق کیں اور وہ حقیقی ’سٹار‘ ہیں جنہیں شہروں میں بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ عورتیں اُن پر فریفتہ تھیں، اور مرد اُن سے حسد محسوس کرتے تھے۔ اُن کی اگرچہ تمام فلمیں بلاک بسٹر نہیں ہیں لیکن ان کی فلمیں ہمیشہ بالخصوص نوجوانوں کی بہت زیادہ توجہ حاصل کرتیں۔‘
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بالی وُڈ کی ایک صدی پر محیط تاریخ میں دیو آنند سا کرزما کسی اور اداکار کا نہ تھا اور یہ بھی ایک اعزاز ہی ہے کہ وہ اُس عمر میں بھی ہیرو آتے رہے جب اداکار ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جس کے باعث دیو آنند کو ’ایور گرین‘ ہیرو کا خطاب دیا جاتا ہے۔
دیو آنند نے چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط اپنے طویل کیریئر میں 100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ اُن کو چار فلم فیئر ایوارڈ، پدما پھوشن اور ہندی سنیما کے سب سے بڑے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔
دیو آنند کی آخری فلم کرائم تھرلر ’چارج شیٹ‘ تھی جس میں ان کے علاوہ نصیرالدین شاہ، جیکی شیروف اور دیویا دتہ نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جب کہ اس فلم کے ہدایت کار بھی دیو آنند ہی تھے۔

اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ کالج لاہورکو دیکھ کر دیو آنند کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے (فائل فوٹو: ٹی او آئی)

اس فلم کی ریلیز کے کچھ ہی ہفتوں بعد تین دسمبر 2011 کو یہ عظیم اداکار ایک عظیم تخلیقی ورثہ چھوڑ کر چل بسا۔
لاہور سے دیوآنند کی محبت دمِ آخر تک قائم رہی۔
وہ سال 1999 میں جب اُس وقت انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ لاہور آئے تو اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ کالج لاہور بھی گئے جسے دیکھتے ہی اُن کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور وہ گورنمنٹ کالج کے در و دیوار سے لپٹ کر روتے رہے۔
وہ ممبئی میں رہتے ہوئے بھی ایک ‘لاہوریے‘ تھے جن کی سانسوں کی مہک، قدموں کی آہٹ آج بھی گورنمنٹ کالج، مال روڈ اور انارکلی بازار کی فضاؤں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

شیئر: