Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منور ظریف مزاح کے ماؤنٹ ایورسٹ، ’خطے کے سب سے بڑے کامیڈین‘

منور ظریف نے 70 کے قریب اُردو فلموں میں کام کیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)
معروف کامیڈین عمر شریف نے ایک بار کہا تھا، ’منور ظریف مزاح کا ماؤنٹ ایورسٹ ہیں اور کوئی بھی اگر کامیڈی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے منور ظریف کا انداز اختیار کرنا ہو گا۔‘
چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات اور برجستہ فقروں کی ادائیگی کسی بھی کامیڈین کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
منور ظریف نے جب فلموں میں قدم رکھا تو انہوں نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ وہ مختصر زندگی جیے مگر ہمیشہ کے لیے شہنشاہِ ظرافت کا خطاب اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔
منور ظرف نے جب اداکاری کا آغاز کیا تو ان کے لیے میدان خالی نہیں تھا۔ نذر، لہری، رنگیلا اور نرالا ایسے اداکار لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے۔ ان میں سینیئر کامیڈین ظریف بھی تھے جو منور ظریف کے بڑے بھائی تھے اور صرف 36 برس کی عمر میں یہ اداکار فلم بینوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرتا چل بسا تھا۔
ذکر منور ظریف کا ہو تو چہروں پر مسکراہٹ کا بکھر جانا فطری ہے۔ ان سمیت ان کے تمام بھائیوں نے اداکاری کی۔ یہ وہ اعزاز ہےجو غالباً ہندوستان اور پاکستان کے کسی اور فلمی خاندان کو حاصل نہیں ہو سکا۔
کامیابی مگر دو بھائیوں ظریف اور منور ظریف کو ہی مل سکی اور ان کے باقی تینوں بھائیوں پر ان کی طرح قسمت اور شہرت کی دیوی مہربان نہیں ہوئی۔
اداکار ظریف نے 50 کی دہائی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ وہ تیز رفتاری سے مکالمے ادا کیا کرتے اور بات سے بات نکالنے کے ہنر میں یکتا تھے۔ ان کا اصل نام محمد صدیق تھا اور انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔
منور ظریف پر اس وقت تک فلمی سٹوڈیوز کے دروازے بند تھے کیوں کہ ظریف نے اپنے چھوٹے بھائی کو یہ واضح ہدایت کر رکھی تھی کہ ’وہ اگر سٹوڈیو میں نظر آئے تو وہ ان کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔‘
صحافی محمود الحسن ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’انہوں نے ایک دن (اداکار) علی اعجاز سے سٹوڈیو چلنے کے لیے کہا جس پر وہ بولے، ’بھائی کی آنکھ بند ہوتے ہی بغاوت پر آمادہ ہو گئے ہو؟‘
اس وقت نوجوان منور ظرف کی عمر محض 20 برس تھی۔ آنکھوں میں کچھ خواب سجا رکھے تھے جنہیں پورا کرنے کا وقت آ چکا تھا۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھنے والے صحافی عبدالحفیظ ظفر نے ایک مضمون میں لکھا ’منور ظریف نے اپنے بڑے بھائی کی وفات کے بعد فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی پہلی فلم ’ڈنڈیاں‘ تھی۔ وہ (علی اعجاز) اور منور ظریف ایک ہی سکول میں پڑھتے رہے تھے۔‘
محمودالحسن اپنے اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں، ’معروف مصنف اے حمید کے  بھائی سے علی اعجاز کی دوستی تھی، ادھر اے حمید ، ظریف کے  یار تھے اور ان سے ملنے قلعہ گجر سنگھ جاتے رہے  تھے، اس لیے وہ علی اعجاز اور منور ظریف کو جانتے تھے۔ ان دونوں سے انہوں نے ایک دفعہ سٹیج پر ٹون کے ساتھ لطیفے سنے تو ان کے ٹیلنٹ سے بےحد متاثر ہوئے، خوب داد دی اور ریڈیو پر آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے کی آفر کی، اس پذیرائی سے دونوں دوستوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ علی اعجاز نے ریڈیو کا رُخ کیا اور منور ظریف سٹوڈیو جانے لگے جہاں انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔‘

وہ مختصر زندگی جیے مگر ہمیشہ کے لیے شہنشاہِ ظرافت کا خطاب اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے (فائل فوٹو: ظریف فیملی)

مضمون نگار شاہد لطیف نے لکھا ہے کہ ’ان (منور ظریف) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 1970 کی دہائی کے مقبول ترین اور سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔ بر صغیر پاک و ہند کے تمام کامیڈینز کا کہنا ہے کہ بلا شبہ وہ اس خطے کے سب سے بڑے کامیڈین ہیں، ان میں جونی لیور بھی شامل ہیں۔ یہ بات مجھے کامیڈین خالد نظامی نے ایک ملاقات میں بتائی۔ جونی لیور سے ان کی ملاقات ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہوئی۔‘
منور ظریف کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق، 25 دسمبر 1940 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے جب کہ کچھ ان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1940 بتاتے ہیں۔
یہ شہر بے مثل موسیقار روشن کی جنم بھومی ہے۔ یہ بالی ووڈ اداکار ارون آہوجہ کا شہر باکمال تھا جن کے صاحب زادے گووندا ہندی فلموں کے معروف کامیڈین ہیں۔ یہ دلدار پروز بھٹی، سہیل احمد اور ببو برال کا شہر ہے۔
گوجرانوالہ کے منور ظریف نے صرف 20 سال کی عمر میں روشنیوں کی چکاچوند میں قدم رکھا۔
پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کے منور ظریف کی سنہ 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈنڈیاں‘ تو کامیاب نہ ہو سکی مگر اس نوجوان نے ہمت نہیں ہاری اور جدوجہد اور اپنی انفرادیت سے چند ہی برسوں میں فلم بینوں کو بے ساختہ قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا۔
ان کی پہلی کامیاب فلم ’ہتھ جوڑی‘ تھی جو سنہ 1964 میں ریلیز ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر محض 24 برس تھی اور اس فلم کے بعد ہی ان کی اداکار رنگیلا کے ساتھ سپرہٹ جوڑی بنی۔
منور ظریف مزاحیہ اداکاری کی جملہ اصناف میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ بذلہ سنجی ، حاضر دماغی، برجستگی اور جسمانی حرکات و سکنات سے فلم بینوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے کے آرٹ میں اپنے تمام معاصرین پر سبقت رکھتے تھے۔
منور ظریف اور رنگیلا کی جوڑی نے فلم بینوں میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ان دونوں نے اکٹھے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ’ہتھ جوڑی‘، ’بدلہ‘، ’ملنگی‘، ’چڑھدا سورج‘، ’یارمار، ’بائو جی‘ اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ ’بدلہ‘ میں منور ظریف کے کام کو بہت پسند کیا گیا جس میں انہوں نے ایک ایسے نوجوان کا کردار ادا کیا جو بھنگ کا نشہ کرتا ہے۔

ان کا منفرد انداز فلم بینوں کا دل موہ لیتا تھا

منور ظریف کے کیریئر میں چار فلمیں ایسی ہیں جن کے ذکر کے بغیر ان کے فنی سفر کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے جن میں ’جیرا بلیڈ‘، ’بنارسی ٹھگ‘، اج دا مہینوال‘ اور ’نوکر ووہٹی دا‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ان چاروں فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا۔
منور ظریف کی موخرالذکر فلم ’نوکر ووہٹی دا‘ کا بالی ووڈ میں چربہ بھی بنایا گیا جس میں پنجاب دھرتی کے ایک اور عظیم اداکار دھرمیندر نے منور ظریف کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے زاں بعد یہ اعتراف کیا کہ وہ اس فلم میں منور ظریف کے پایے کی اداکاری نہیں کر پائے تھے۔
منور ظریف نے اپنے 15 برس کے مختصر کیریئر میں 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ یوں وہ ہر سال اوسطاً 20 سے زیادہ فلموں میں کام کرتے رہے۔ انہوں نے اس قدر بڑی تعداد میں فلموں میں کام کیا مگر اداکاری پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ ان کی ہر فلم میں ان کا انداز فلم بینوں کا دل موہ لیتا تھا۔
منور ظریف نے خود کو مزاح تک محدود نہیں رکھا۔ وہ ہیرو، ولن کے علاوہ سائیڈ ہیرو کے کردار میں بھی جلوہ گر ہوتے رہے۔

منور ظریف کی پہلی کامیاب فلم ’ہتھ جوڑی‘ تھی جو سنہ 1964 میں ریلیز ہوئی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

عبدالحفیظ ظفر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، ’منور ظریف نے ایک اردو فلم میں منفی کردار بھی ادا کیا تھا جس کا نام تھا ’زینت‘۔ یہ ایک سپرہٹ فلم تھی اور شبنم کے ساتھ منور ظریف کی اداکاری کو بھی شائقین نے پسند کیا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں، ’وحید مراد نے جب ’مستانہ ماہی‘ کے نام سے پنجابی فلم بنائی تو کامیڈین کے طور پر منور ظریف کو کاسٹ کیا۔ وحید مراد کا منور ظریف کے بارے میں کہنا تھا کہ ایسا اداکار کبھی کبھی پیدا ہوتا ہے۔‘
منور ظریف ایک کامیڈین کے طور پر پہچان رکھتے تھے مگر ان کا 1970 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہیررانجھا‘ میں ادا کیا گیا کھیڑے کا کردار ہمیشہ کے لیے اَمر ہو گیا۔
اداکار علی اعجاز نے اس حوالے سے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’فلم ’ہیررانجھا‘ میں منور ظریف نے جس طرح کھیڑے کا کردار ادا کیا تھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’منور ظریف کی اس فلم میں اداکاری نے انہیں بہت متاثر کیا۔‘
سنہ 1968 میں اداکار نے فلم ’تاج محل‘ میں ایک مختصر مگر منفرد کردار ادا کیا جس میں منور ظریف کا یہ مکالمہ برسوں گزر جانے کے بعد آج بھی تروتازہ معلوم ہوتا ہے، ’لوگوں کے رشتے رشتے جوڑتے جوڑتے میرا اپنا جوڑ جوڑ ہلنے لگا ہے۔ اب ان جوڑوں کو کون جوڑے گا۔‘
محمد جاوید یوسف ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’منور ظریف کے مکالمے بھی خودساختہ ہوتے تھے، لوگ بتاتے ہیں کہ انہیں صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ کا یہ رول ہے، خاص طور پر جب وہ اور رنگیلا ایک ساتھ ہوتے تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی اور پھر ہدایت کار کے لیے مشکل ہو جاتا تھا کہ کون سا جملہ رکھے اور کون سا حذف کرے۔‘
سنہ 1969 میں ریلیز ہونے والی فلم ’تیرے عشق نچایا‘ میں اداکار یوسف خان نے ہیرو اعجاز کے باپ کا کردار ادا کیا ہے جو اسے مشورہ دیتے ہیں، ’یار کوڈو بادشاہ، تو بھی اپنے آپ کو عشق کا روگ لگا لے۔‘
منور ظریف بدک کر اور ہاتھ جوڑتے ہوئے برجستہ کہتے ہیں: ’نہ چاچا نہ…تو مجھے یہ بددعا نہ دے… میں تو عشق کی ریڑھی لگاؤں گا اور اس میں پیار کی میٹھی میٹھی ریوڑیاں بیچوں گا…اور یہی صدا لگاؤں ہے… دم ہی دم۔۔۔نہ دھوکا نہ غم…کمائے گی دنیا اور کھائیں گے ہم…‘

منوّر ظریف مرحوم بڑی کامیابی سے عورت کے روپ میں ڈھل جایا کرتے تھے(فائل فوٹو: پاک میگزین)

محمد جاوید یوسف لکھتے ہیں، ’سنہ  1972 تک منورظریف چوٹی کے مزاحیہ اداکار کے طور پر فلموں میں نظر آتے رہے لیکن سنہ 1973 ان کے فلمی کیرئیر کے لیے یادگار سال ثابت ہوا جب پہلے وہ اردو فلم ’’پردے میں رہنے دو‘‘ میں رنگیلا کے ساتھ سائیڈ ہیرو کے طور پر نظر آئے۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد اسی انداز کی ایک اردو فلم ’رنگیلا اور منورظریف‘ بنائی گئی جو باکس آفس پر ایک اور کامیاب ترین فلم تھی۔ رنگیلا کے بعد منورظریف پاکستان کے دوسرے ایسے اداکار تھے جن کے نام پر کوئی فلم بنائی گئی۔‘

منور ظریف کی پہلی فلم ’اونچے محل‘ تھی

منور ظریف نے 70 کے قریب اُردو فلموں میں کام کیا۔ وہ پاکستان کے واحد ایسے اداکار ہیں جنہوں نے مرد ہوتے ہوئے بھی فلم کا مرکزی نسوانی کردار ادا کیا۔
عارف وقار کے ایک مضمون کے مطبق ’پاکستان میں منوّر ظریف مرحوم بڑی کامیابی سے عورت کے روپ میں ڈھل جایا کرتے تھے۔ ایک ناز نخرے والی عورت، جو عشوہ و غمزہ دِکھا کر کئی دِل پھینک مردوں کو پیچھے لگا لیتی تھی۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں ’سنہ 60 کی دہائی میں بننے والی بہت سی پنجابی فلموں میں منور ظریف سے یہ کام لیا گیا۔ زنانہ لباس پہنا کر انہیں صرف ایک دھوکے باز حسینہ کے طور پر ہی استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اُن پر کم از کم ایک مزاحیہ گیت اور ایک اُوٹ پٹانگ رقص بھی فلمایا جاتا تھا۔‘
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ منور ظریف کی اگرچہ پہلی فلم ’ڈنڈیاں‘ ریلیز ہوئی تھی مگر ان کی پہلی فلم رحیم گل کی ہدایات میں بننے والی ’اونچے محل‘ تھی جس کے وہ معاون ہدایت کار بھی تھے اور اس کی تاخیر قدرے تاخیر سے ہوئی۔ یہ رحیم گل اُردو کے بے بدل ناول نگار تھے جن کے ناول ’جنت کی تلاش‘ اور ’تن تارارا‘ آج بھی ادب کا ذوق رکھنے والوں میں معروف ہیں۔
منور ظریف نے اس فلم میں ایک مختصر کردار ادا کیا تھا جو ہدایت کار رحیم گل نے سیٹ پر ان کی جگت بازی اور حاضر جوابی سے متاثر ہو کر انہیں دیا تھا۔

’اُن کی ایک استاد بندریا بھی تھی‘

منور ظریف کی یوں تو بہت سی فلمیں کامیاب ہوئیں مگر بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، خوشیا، منجھی کتھے ڈانواں، چکرباز، بندے دا پتر، ملنگی، ڈاچی، بھریا میلا، لاڈو، مرزا جٹ، میرا نام پاٹے خان، بندے دا پتر، شیدا پستول، نمک حرام اور حکم دا غلام قابلِ ذکر ہیں جب کہ اُردو فلموں میں آئینہ، ہم راہی، دیا اور طوفان، تم ہی ہو محبوب میرے، انسان اور آدمی، رنگیلا، دل اور دنیا، دامن اور چنگاری اور بہارو پھول برساؤ اہم ہیں۔
منور ظریف 29 اپریل 1976 کو اپنے انتقال تک 30 سے زیادہ فلموں میں کام کر رہے تھے جو ان کی موت کے چار برس بعد تک ریلیز ہوتی رہیں۔ ان کی آخری فلم ’لہو دے رشتے‘ تھی جو سنہ 1980 میں ریلیز ہوئی۔
محمودالحسن ان کی اداکاری پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’منور ظریف نے دوسرے اداکاروں سے بھی بہت کچھ سیکھا ہو گا لیکن ان کی ایک استاد بندریا بھی تھی جس کی نقلیں اتار اتار کر  وہ ایکشن کامیڈی کی ریہرسل کرتے۔‘
منور ظریف کی بے وقت موت کے بعد یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ ان کی موت کی وجہ کثرتِ بادہ نوشی ہے، تاہم ان کے قریبی دوست اور اداکار علی اعجاز نے ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’منور ظریف آرام نہیں کرتے تھے اور مسلسل کام کرتے رہتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ زندگی ان سے روٹھ گئی۔ انہوں نے صرف 36 برس عمر پائی۔‘
منور ظریف حقیقت میں کامیڈی کا دبستان تھے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی ان جیسا کامیڈین شاید ہی کوئی پیدا ہوا ہو۔ ان کی اداکاری میں پنجاب دھرتی کے وہ تمام رنگ جمع ہو گئے تھے جو اب بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں اور ان کا نام چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ ان کا کام ایک ایسے گائیک کے گیت کی طرح ہے جو برسوں گزر جانے کے بعد بھی کانوں میں رَس گھولتا ہے۔

شیئر: