Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا تاریخ میں پہلی بار خواتین کو پارٹی عہدے دینے کا فیصلہ

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی کی جماعت ہے (فوٹو: پشتونخوا میپ)
پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے پارٹی کے آئین میں اہم ترامیم کرتے ہوئے پہلی بار خواتین کارکنوں کو پارٹی عہدے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ پارٹی چیئرمین، کابینہ، مرکزی کونسل اور مرکزی کمیٹی کے عہدے داروں کے طریقہ انتخاب کو بھی تبدیل کردیا گیا جس میں عدم اعتماد اور کسی فیصلے پر متفق نہ ہونے کی صورت میں پہلی بار خفیہ رائے دہی کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی تحریک تحفظ آئین پاکستان کے نام سے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جماعت ہے جو بلوچستان کی قدیم ترین سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پانچ دہائیاں قبل ان کے والد قوم پرست رہنما عبدالصمد خان اچکزئی نے رکھی تھی۔  
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی کے بانی اور موجودہ چیئرمین کی جانب سے خواتین کے حقوق کی بھر پور حمایت  کے باوجود 54 سالہ پرانی اس جماعت میں کبھی کسی عہدے پر کوئی خاتون فائز نہیں رہی۔ تاہم پارٹی کے ٹکٹس پر کئی خواتین صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ممبر رہ چکی ہیں۔ قوم پرست اور بائیں ہاتھ کی جماعت ہونے کے باوجود خواتین کو نظر انداز کرنے پر پشتونخوا میپ کو تنقید کا سامنا رہتا تھا۔
رواں ہفتے پشتونخوا میپ نے اپنی مرکزی کونسل (قومی جرگے ) کے اجلاس میں اپنی اس دیرینہ پالیسی میں تبدیلی کر دی ہے اور اس کے ساتھ آئین میں کئی دیگر اہم ترامیم  کی بھی منظور ی دے دی ہے۔ 21 ستمبر کو کوئٹہ میں ہونے والے پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کی زیر صدارت مرکزی کونسل کے اجلاس میں ملک بھر سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے  سینکڑوں عہدے داروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں شریک پارٹی کے ایک عہدے دار نے اردو نیوز کو بتایا کہ اکیس ستمبر کو صبح نو بجے شروع ہونے والا اجلاس سولہ گھنٹے تک جاری رہا جس میں  پارٹی کی مرکزی قیادت  کو کارکنوں کے سخت سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کارکنوں نے پارٹی کی افغان پالیسی میں تبدیلی، پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور دیگر فیصلوں سے متعلق سوالات پوچھے جس کے محمود خان اچکزئی اور دیگر قائدین نے  بڑے حوصلے سے جواب دیے۔
پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے اہم ادارے کانگریس نے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو آئین میں ترامیم کا اختیار دیا تھا جس پر 21 اگست کو اسلام آباد میں پارٹی کی مرکزی ایگزیکٹیو نے پارٹی کے چیئرمین کی سربراہی میں آئین اور منشور میں تبدیلیوں کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ان کے مطابق اس کمیٹی میں سینیئر ڈپٹی چیئرمین ارشد خان، ڈپٹی چیئرمین رؤف لالہ، مرکزی سیکریٹری جنرل عبدالرحیم زیارتوال اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات تالیمند خان شامل تھے۔
کمیٹی نے پارٹی کے آئین اور منشور پر بڑی محنت سے کام کیا اور پارٹی کے سٹرکچر اور آئین میں اہم ترامیم کی ہیں تاکہ اسے  حالات اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ کمیوں اور خامیوں کو دور کیا جاسکے۔

پشتونخوا میپ سے الگ ہونے والی جماعت پشتونخوا نیپ نے خواتین کی شمولیت پر خصوصی توجہ دی (فائل فوٹو: پشتوںخوا نیپ)

عبدالرحیم زیارتوال نے بتایا کہ پارٹی نے مرکزی کابینہ میں دو عہدے ایسے تخلیق کیے گئے ہیں جس پر صرف خواتین کی تعیناتی ہوگی۔ ان میں ایک عہدہ ڈپٹی چیئر پرسن اور ایک عہدہ ڈپٹی جنرل سیکریٹری کا ہوگا۔
عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ’ہماری پارٹی اور قائدین ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے ہیں، ہم نے انہیں اسمبلیوں میں نمائندگی دی ہے، اب انہیں مرکزی اور صوبائی کابینہ میں بھی عہدے دیئے جائیں گے۔‘
تاہم پارٹی کے آئین میں خواتین کے لیے کسی الگ ونگ کا ذکر موجود نہیں۔ اس سلسلے میں پارٹی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ مرحلہ وار آگے بڑھ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں اور خواتین سیاسی کارکنوں نے پشتونخوا میپ کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے سیاست میں خواتین کی شمولیت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
پشتون سیاسی جماعتوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار حفیظ اللہ شیرانی کا کہنا ہے کہ پارٹی کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی  قدامت پسند پشتون معاشرے میں خواتین کے حقوق کے علمبردار اور صنفی مساوات کے حامی تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو لڑکوں کے سکول بھیجا انہیں سائیکل چلانے کی ترغیب دی اور انہیں کئی اہم ملاقاتوں میں بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے بانی کی طرح ان کے بیٹے موجودہ چیئرمین محمود خان اچکزئی بھی خواتین کےسیاسی و سماجی  حقوق کی بات کرتے رہے ہیں لیکن ان تمام کے باوجود پارٹی کے فیصلہ ساز اداروں میں خواتین کو نظر انداز کرنے پر انہیں تنقید کا بھی سامنا تھا۔ 
خواتین کو طویل عرصہ نظر انداز کرنے کی وجہ حفیظ اللہ شیرانی یہ سمجھتے ہیں کہ قوم پرست جماعتیں چاہنے کے باوجود خواتین کو زیادہ آگے نہیں لاسکیں کیونکہ وہ اس بات سے ڈرتی تھیں کہ قدامت پسند معاشرے میں اس عمل کو ان کے خلاف استعمال کیاجاسکتا ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ اب شاید پشتونخوامیپ کے لیے حالات بدل گئے ہیں جس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے جو خطے کی خواتین  کے لیے اہم ثابت ہوگا اور اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت بڑھے گی۔
بلوچستان کے پشتون علاقوں میں فعال خاتون سیاسی کارکن کے طور پر پہچان بنانےو الی وڑانگہ لونی کہتی ہیں کہ صوبے کی ایک پرانی جماعت کی فیصلہ سازی میں اتنی طویل مدت بعد خواتین کی باقاعدہ شمولیت اچھا اقدام ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین کسی نہ کسی طریقے سے پہلے بھی سیاست کا حصہ رہی ہیں، تاہم ان کی شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی اب ایک اہم جماعت کی جانب سے فیصلہ سازی میں کردار دینے کے بعد ان کی شمولیت بڑھے گی،  تنظیمی طور پر جگہ ملنے کے بعد خواتین کی اچھی تربیت ہوسکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نظر انداز بقیہ آدھی آبادی کو ساتھ لے کر جانے والی جماعت ہی اپنا سفر تیزی سے طے کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشتون معاشرے کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ بھی سیاست میں خواتین کو نظر انداز کرنا ہے، آدھی آبادی کو الگ تھلگ رکھا گیا ہے، خاتون سیاست میں آئے گی تو ا س کا شعور بڑھے گا وہ اپنے گھر، خاندان، علاقے  کی بہتری کے لیے  زیادہ اچھے انداز میں کام کرسکیں گی۔
وڑانگہ لونی کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ معاشروں میں مرد و خواتین برابری کی بنیاد پر چلتے ہیں کیونکہ صنفی مساوات کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں جاسکتا۔ خواتین کو مزید بھی با اختیار بنانا چاہیے۔ انہیں مرکزی چیئرمین اور صوبائی صدارت بھی ملنی چاہیے، انہیں سیاست سمیت تمام شعبوں میں برابری کی بنیاد پر حصہ ملنا چاہیے۔
پشتونخوا میپ نے اپنے آئین میں کئی دیگر اہم اور بنیادی تبدیلیاں بھی کی ہیں جس کے نتیجے میں پارٹی کی مرکزی کونسل کو کئی اہم اختیارات حاصل ہوگئے ہیں جو پہلے دستیاب نہیں تھے۔
اردو نیوز کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق کانگریس کے بجائے اب سات سو اراکین پر مشتمل مرکزی کونسل پارٹی کی مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کا انتخاب کرے گا۔
اس سے پہلے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا پہلے سب سے اہم ادارہ کانگریس تھا جس کے لیے پارٹی کا ہر یونٹ ایک مندوب کا انتخاب کرتا تھا۔ یہ مندوبین پارٹی چیئرمین کے انتخاب سمیت دیگر اہم فیصلے کرتے تھے۔  دسمبر 2022 میں 15 ہزار سے زائد مندوبین نے محمود خان اچکزئی کو پارٹی کا دوبارہ چیئرمین منتخب کیا تھا۔

سابق سینیٹر عثمان خان  کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کی سربراہی میں الگ جماعت کی بنیاد رکھی گئی (فوٹو: سینیٹ سیکرٹریٹ)

عبدالرحیم زیارتوال کے مطابق اب پارٹی کا سب سے با اختیار ادارہ 700 اراکین پر مشتمل مرکزی کونسل  ہوگا جسے قومی جرگہ کہتے ہیں۔  پانچ سالہ مدت کے لیے مرکزی کونسل کے اراکین کا انتخاب گاؤں محلے کے ابتدائی یونٹ سے لے کر بتدریج صوبے سے ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو پانچ سال کے لیے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی کابینہ و مجلس عاملہ کے انتخاب کے علاوہ مرکزی کونسل کو پارٹی کے آئین و منشور اور بنیادی پالیسی میں تبدیلی کا اختیار بھی ہوگا۔ مرکزی کونسل کے اراکین سادہ اکثریت سے پارٹی کے کسی مرکزی عہدے دار یا عہدے داروں کے خلاف عدم اعتماد بھی کرسکیں گے۔
دستاویزات کے مطابق مرکزی کونسل کے لیے پچاس اور مرکزی کمیٹی کے لیے گیارہ ارکان کی نامزدگی  پارٹی چیئرمین کی صوابدید پر ہوگی۔ پارٹی چیئرمین کی جانب سے کسی بھی پارٹی رکن کے خلاف تادیبی کارروائی کا اختیار ہوگا، تاہم اس کی توثیق مرکزی مجلس عاملہ سے لازمی کرانا ہوگی۔
حفیظ اللہ شیرانی کا کہنا ہے کہ پشتونخوا میپ میں یہ تبدیلیاں وقت  کی ضرورت تھیں اس سے خود پشتونخوا میپ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا اور اس کے مستقبل پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے قبائلی اور سیاسی ماحول میں لیڈر شپ سمجھتی تھی کہ کچھ  اختیارات کو اپنے تک محدود رکھنا چاہیے۔ ان کی اپنی مجبوریاں تھیں لیکن اس بات پر خود کو قوم پرست اور جمہوریت پسند کہنے والی جماعت  کو تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی 2022 کے آخر میں اس وقت تقسیم ہوگئی جب محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سمیت کئی سینیئر عہدے داروں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر پارٹی سے  برطرف کردیا۔ اس کے بعد پارٹی کے مرحوم رہنما سابق سینیٹر عثمان خان  کاکڑ کے جوان سال بیٹے خوشحال خان کاکڑ کی سربراہی میں پارٹی کے کئی پرانے ساتھیوں نے الگ جماعت کی بنیاد رکھی جسے بعد ازاں پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کا نام دیا گیا۔
اس تقسیم کے بعد پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ صحافی و تجزیہ کار حفیظ اللہ شیرانی کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی پر ان کے سابق ساتھی تنقید کرتے تھے کہ ایک فرد کو تمام فیصلوں کا اختیار دیا گیا ہے۔ جماعت کے اندر ان سے اختلاف کرنا مشکل ہے، لیکن اب پارٹی کے آئین میں عدم اعتماد اور کسی فیصلے پر اختلاف کی صورت میں خفیہ رائے شماری کا آپشن دے دیا گیا جو بہت بڑی تبدیلی ہے اس سے قیادت کو جوابدہ بنانے میں مدد ملے گی۔
عبدالرحیم زیارتوال کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اپنے منشورپر بھی بہت غور و خوض کیا ہے اس میں ہر شعبے کو الگ الگ دیکھا ہے، سیاست، معیشت، خارجہ پالیسی، زراعت، ماحولیاتی تبدیلیوں، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بنیادی انسانی و آئینی حقوق، صحت تعلیم، لائیو سٹاک، مادری زبانوں اور دیگر  شعبوں سے متعلق اپنا مؤقف واضح کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اہداف رکھے ہیں ۔ ہم پارٹی کے بانی خان شہید کے دیرینہ مؤقف اور جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ بلوچستان  اور پنجاب کے پشتون علاقوں کو خیبر پشتونخوا کے ساتھ ملاکر پشتونخوا، افغانیہ یا پھر پشتونستان کے نام پر ایک وحدت قائم کی جائے، قوموں کو ان کے حقوق اور اختیارات دیے جائیں۔

شیئر: