کیا آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی نے ’سٹیئرنگ وہیل‘ سنبھال لیا ہے؟
کیا آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی نے ’سٹیئرنگ وہیل‘ سنبھال لیا ہے؟
جمعرات 26 ستمبر 2024 14:46
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
بلاول بھٹو نے واضح کیا تھا کہ ’ہم اس ترمیم کو پاس کروا کر ہی رہیں گے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان میں حکمراں جماعت ن لیگ اور اس کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں گذشتہ ہفتے ایک آئینی ترمیم لانے میں بظاہر ناکام رہیں جس کے تحت ملک کے عدالتی نظام میں بڑی تبدیلی کی توقع کی جا رہی تھی۔
اس ’ناکامی‘ کی سب سے بڑی وجہ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے عین موقع پر اس نئے قانون کی حمایت نہ کرنا تھی کیونکہ حکومت کو سینیٹ سے ترمیم پاس کروانے کے لیے ہر حال میں مولانا کی مدد درکار ہے۔
اب صورت حال ایک مرتبہ پھر دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے سب سے زیادہ متحرک ہو گئے ہیں۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے ن لیگ کو ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹا کر سٹئیرنگ وہیل خود سنبھال لیا ہے۔
بدھ کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں بلاول بھٹو نے واضح کیا تھا کہ ’ہم اس ترمیم کو پاس کروا کر ہی رہیں گے۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اسی دن شام کو صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ’ہم نئی آئینی عدالت کے حق میں ہیں۔ صرف ہمارا اعتراض ہے کہ قانون سازی کسی فرد واحد کی خوشی کے لئے نہ ہو۔ تاہم ضرورت کے لیے ہونے والی قانون سازی میں کوئی حرج نہیں۔‘
خیال رہے کہ اس ترمیم کو متعارف کروانے والی ن لیگ اس وقت منظرنامے سے غائب ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے ان دنوں امریکہ میں ہیں جبکہ دیگر وزرا بھی محاذ پر ڈٹے دکھائی نہیں دے رہے۔
البتہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے حالیہ بیانات سے تاثر مل رہا ہے کہ اب بھی اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے سیاسی قوتیں متحرک ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے اُردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ’یہ تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہ ترمیم پاس کرنے کے لیے اب راؤنڈ ٹو کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس مرتبہ اس میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا اور اس حوالے سے اکتوبر کا پہلا ہفتہ اہم ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بظاہر اس ترمیم کے لیے حکمراں جماعت کے بجائے بلاول بھٹو کیوں زیادہ متحرک ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو ترمیم کے خدوخال سامنے لے آئے ہیں اس پر جو اعتراض کیے گئے اور ایک سیاسی تفہیم پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سیاسی عمل ایسے ہی ہوتے ہیں۔‘
تاہم انہوں نے یہ واضع نہیں کیا کہ اس حوالے سے پسِ دیوار کیا کوششیں ہو رہی ہیں اور کیا مولانا فضل الرحمان حمایت کرنے کے لیے مکمل طور پر راضی ہو چکے ہیں یا کیا وہ بلاول بھٹو کے ساتھ کوئی مشترکہ مسودہ لا رہے ہیں جو حکومتی مسودے سے ہٹ کر ہو گا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’یہ ترمیم پارلیمنٹ سے پاس ہونا نا گزیر ہے اور اسی میں سب کی بہتری ہے۔ پاکستان کی ترقی کا سفر جیسے دوبارہ شروع ہوا ہے اس کے لیے بھی بہت ضروری ہے کہ سب اپنی اپنی حدود میں کام کریں۔ حکومت اب بھی پوری طرح کوشش کر رہی ہے کہ کسی طریقے سے مکمل اتفاق رائے سے اس ترمیم کو پاس کروایا جائے۔‘
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’پیپلزپارٹی متفقہ آئین لانے سے لے کر 18ویں ترمیم اور اب 27 ویں ترمیم لانے کے اپنے اعزاز کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وقتی طور پر بھلے اس میں حکمراں جماعت کا فائدہ ہو لیکن پاکستان کے طاقت کے مراکز میں ٹھہراؤ لانے کے لیے یہ ایک طویل مدتی بندوبست ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں زیادہ تر شقیں تو پیپلزپارٹی پہلے ہی اٹھارویں ترمیم کے وقت لے کر آئی تھی جنہیں نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں بلاول کا زیادہ متحرک ہونا ایک قدرتی سی بات لگتی ہے۔‘