Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پان کھائے سیّاں ہمارو: برصغیر میں پان کی روایت

انڈیا میں پان کھانے کی روایت کوئی پانچ ہزار سال سے رائج ہے (فوٹو: دی ٹیلیگراف)
گذشتہ دنوں دوستوں کی ایک محفل جمی، مغلئی کھانے کے بعد جب پان پیش کیا گیا تو بہت سوں کو حیرت ہوئی اور ایک نے تو یہ تک کہا کہ ’واہ بھئی ابھی تک وضع داری قائم ہے۔‘
پھر ہمارے درمیان پان کے متعلق باتیں شروع ہو گئیں اور سب نے اپنے اپنے موبائل پر پان کے متعلق تلاش شروع کی تو پایا کہ انڈیا میں یہ گھروں سے تو رفتہ رفتہ رخصت ہو رہا ہے، لیکن بازاروں میں اس کی رونق ہے اور پان کی اقسام کا تو مت ہی پوچھیے، بس پان والے سے بات کرتے جائیے وہ آپ کی پسند کا پان تیار کرتا جائے گا۔
چنانچہ تھوڑی ہی دیر میں پان پر پوری تحقیق ہو گئی اور یہ پتا چلا کہ انڈیا میں یہ کوئی پانچ ہزار سال سے رائج ہے۔ یہاں تک کہ ’طوطی ہند‘ امیر خسرو دہلوی نے اس کی شان میں قصیدہ تک لکھ ڈالا ہے اور اسے انڈیا کی ’خوب ترین نعمت‘ کہا ہے۔
ہم نے انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا کو بھی کھنگال ڈالا تو اس میں اسے ’ماؤتھ فریشنر‘ سے تعبیر کیا گیا تھا اور لکھا تھا کہ اگرچہ حالیہ تحقیق میں اس کے کچھ نقصانات سامنے آئے ہیں لیکن اس کا استعمال پورے برصغیر اور ان تمام ممالک میں کثرت سے ہوتا ہے جو ماضی میں ہندوستان کے رابطے میں آئے تھے۔
پان کو فارسی میں تنبول کہتے ہیں جبکہ محقق آر وی رسل نے بتایا ہے کہ یہ سنسکرت لفظ ’پرن‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب پتہ یا برگ ہوتا ہے۔ تنبولا بھی اپنے آپ میں سنسکرت لفظ ہے۔
پان کے پتے کی شکل دل کی طرح ہوتی ہے اور جب اسے چونے، کتھے اور سپاری کے ساتھ چبایا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ سرخ رنگ ہوتا ہے جسے بعض شاعر صفتوں نے محبت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ اردو شاعری بھی پان کے ذکر سے بھری پڑی ہے جبکہ یہ ہندوستانی رسم و رواج اور زبان و بیان میں رچا بسا ہے۔
پان کے ساتھ بہت ساری چیزیں وابستہ ہیں۔ پان رکھنے والے برتن کو پاندان کہتے ہیں یعنی ایک زمانے میں خاندانی لوگوں کے ہاں پاندان کی موجودگی کو ضروری سمجھا جاتا تھا جبکہ لڑکیوں کے جہیز یہ ایک ضروری سامان ہوتا تھا۔
چنانچہ اگر آپ دیکھیں تو پاندان پر جس طرح گل بوٹے اور جس طرح کی نقاشی نظر آتی ہے ایک زمانے میں ویسا کوئی دوسرا برتن نہیں ملتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا ورژن ’پان بٹی‘ کہلاتا ہے جس میں بنے ہوئے پان گلوریوں کی شکل میں رکھے جاتے ہیں جو عام طور پر پان کے شوقین حضرات گھر سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے جس میں دن بھر لیے کافی پان لگا ہوا رکھا ہوتا ہے۔
دوسری جانب پاندان میں پان کچے انداز میں مفرد مفرد ہوتے ہیں اور اس میں ہر چیز الگ الگ ڈبیے میں رکھی ہوتی ہیں جبکہ چھالیوں یا ڈلیوں کو کاٹنے کے لیے سروتے رکھنے کی بھی اس میں جگہ ہوتی ہے تاکہ وہ کہیں گم نہ ہو جائے۔

ایک رسم تو یہ بھی تھی کہ ایک پان دولہے کو پیش کیا جاتا تھا (فوٹو: دی ہندو)

پان کے مختلف استعمال ہیں لیکن جب پان میں سارے مسالے ڈال دیے جاتے ہیں اور انھیں موڑ دیاجاتا ہے تو وہ بیڑہ بن جاتا ہے اور پھر لوگ ایک بیڑہ منھ میں دبا کر اس کا مزہ لیتے ہیں۔ محاروہ ’بیڑہ اٹھانا‘ بھی اسی سے بنا ہے کہ کسی زمانے میں کسی اہم کام سے پہلے لوگ پہلے پان کا ایک بیڑہ اٹھاتے تھے اور پھر اس کام کو انجام دینے کے لیے کمربستہ ہوجاتے تھے۔
ایک مثل پان کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ ’پان سے پتلا چاند سے چکلا‘ جس کا مطلب انتہائی حسین و جمیل اور نازک اندام ہوتا ہے۔
آج کسی خوشی کے موقعے پر لوگ منھ میٹھا کرانے کی بات کرتے ہیں جبکہ پہلے ایسے کسی موقعے پر پان پیش کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کسی کی منگنی اور شادی میں پان کی اپنی ہی اہمیت تھی جس کے بعد رشتے کو پکا سمجھا جاتا تھا۔
ایک رسم تو یہ بھی تھی کہ ایک پان دولہے کو پیش کیا جاتا تھا جس میں سے وہ نصف کھاتا تھا اور باقی نصف دلہن کو پیش کیا جاتا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ اس سے محبت بڑھے گی۔
پان کی اقسام
پان تو ویسے نہ جانے کتنی ہی اقسام کے ہیں لیکن انڈیا میں اس کی کوئی ایک درجن اقسام مشہور ہیں جن میں مگدھی، مگہی، مہوبا، بنگلہ، بلہری، کانپری، مدراسی، بنارسی، حیدرآبادی (لونگ پان) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ نہ صرف الگ الگ علاقوں میں پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان کے رنگ اور ذائقے بھی ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتے ہیں۔ کوئی گہرا سبزی مائل ہوتا ہے تو کوئی ہلکا سبز، کوئی ترش تو کوئی میٹھا اور کوئی پھیکا۔
پان کے پتوں کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن پان کی دو اقسام ہیں ایک زردے یا تمباکو والے دوسرے میٹھے۔ اب زردے والے پان کی بھی مختلف اقسام ہیں جن میں مختلف قسم کے تمباکو، کیوڑے، الائچی، لونگ، یہاں تک کہ زعفران بھی ڈلتے دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ میٹھے پان میں سونف کے ساتھ پچھتر قسم کے مصالحے ہوتے ہیں۔

جب فلموں میں کوئی مسلم معاشرہ دکھایا جاتا ہے تو اس میں پان اور حقہ وغیرہ شامل ہوتا ہے (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

موجودہ نسل تو چاکلیٹ اور آئس کریم والے پان بھی کھا رہی ہے جبکہ ان میں عام طور پر گل قند اور دوسرے مصالحہ جات ہوتے ہیں۔ پان میں ان دنوں اتنے سامان ہوتے ہیں کہ ایک بار میں منہ میں ڈالنا بھی مشکل ہو گيا ہے جبکہ پان کے اصل شوقین تو ایک چھوٹا سا بیڑہ منھ میں ڈال کر اس کا رس لیتے رہتے ہیں۔ تمباکو والے پان تھوک دیے جاتے ہیں جبکہ میٹھے پان عام طور پر نگل لیے جاتے ہیں۔
اس سے دانتوں کو نقصان پہنچتا ہے لیکن اس کے شوقین اسے کسی تریاق سے کم نہیں سمجھتے۔ بعضے کا کہنا ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی سپاری کینسر کا باعث بنتی ہے تو بعض چونے کو دانتوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں۔
ویسے سادہ پان کے پتے میں کوئی خرابی نہیں بتائی گئی ہے بلکہ اسے ہاضم سمجھا جاتا ہے۔ انڈین فلموں میں پان کو سٹیریو ٹائپ بنا دیا گیا ہے اور اسے مسلم تہذیب کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انڈیا میں مغربی بنگال اور آسام سے لے کر اترپردیش اور دہلی تک پان کھانے والوں میں ہندو مسلمان دونوں برابر کے شریک ہیں۔
البتہ جس اہتمام کے ساتھ مغلوں اور نوابوں کے ہاں اس کا استعمال دیکھا گیا ہے ویسا اہتمام ابھی مشکل ہے۔ جان عالم نواب واجد علی شاہ کے پان کا ذکر بھی خصوصی طور پر ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایک بار ان کی کسی خادمہ نے ان کی گلوری چبا لی تھی تو وہ بے ہوش ہو گئی تھی کہ اس میں اس قدر گرمی اور نشہ تھا کہ جو اس کی قوت برداشت سے باہر تھا۔
شاید اس لیے جب فلموں میں کوئی مسلم معاشرہ دکھایا جاتا ہے تو اس میں پان اور حقہ وغیرہ شامل ہوتا ہے، چاہے اب وہ ستیہ جیت رے کی فلم ’شطرنج کے کھلاڑی‘ ہی کیوں نہ ہو۔
فلم ’ڈان‘ میں بنارسی پان کا ذکر امیتابھ بھی کرتے ہیں اور پان کھا کر وہ ’کھائیکے پان بنارس والا‘ گیت گاتے ہیں۔ جبکہ فلم ’تیسری قسم‘ میں ’پان کھائے سیاں ہمارو‘ جیسے گیت ہیں۔

سادہ پان کے پتے میں کوئی خرابی نہیں بتائی گئی ہے بلکہ اسے ہاضم سمجھا جاتا ہے (فوٹو: انڈین مارٹ)

پان پر بات کو تمام کرتے ہوئے ایک پان ہو جائے اور پھر چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مظہر جان جاناں لکھتے ہیں:
کسی کے خون کا پیاسا کسی کے جان کا دشمن
نہایت منہ لگایا ہے سجن نے بیڑۂ پاں کو
ظہیر لکھنوی کے مندرجہ ذیل شعر میں جہاں پان کا ذکر ہے وہیں ایک تہذیب کا بھی:
پان لگ لگ کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
اردو کے معروف اور مزاحیہ شاعر اکبر الہ آبادی کا بھی ایک شعر سنتے چلیے۔
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے، ستم ہے، دل فدا ہے، جان حاضر ہے

شیئر: