انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کی نیندیں اڑا دینے والا ڈاکو چھویرام کون تھا؟
انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کی نیندیں اڑا دینے والا ڈاکو چھویرام کون تھا؟
ہفتہ 29 جون 2024 7:14
یوسف تہامی، دہلی
وزیراعظم اندرا گاندھی نے چھویرام کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔ (فائل فوٹو: انڈیا ڈاٹ کوم)
ایک ڈاکو جس کا بیٹا پولیس افسر بنا اور جسے آج بھی لوگ ’مسیحا‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں، ایک زمانے میں اس نے انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی نیندیں اڑا دی تھیں۔
اس نے اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا تھا، اور اس قدر دہشت پھیلا رکھی تھی کہ پولیس بھی اس کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہتی۔ یہاں تک کہ اس کے گروپ کے ایک ایم ایل اے کو قتل کر کے زمین میں دفن کرنے کا الزام بھی تھا۔
سنہ 1978 میں جب ایم ایل اے کے قتل کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے اترپردیش، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی حکومتوں کو اسے ختم کرنے کا حکم دیا۔
اس وقت اترپردیش کے وزیراعلٰی وی پی سنگھ تھے۔ ڈاکو چھویرام ان کے لیے ایک چیلنج بن گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سنہ 1980 میں چھویرام کو ختم کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا لیکن دو سال تک وہ کارگر ثابت نہیں ہوا اور پہلے تصادم میں متعدد پولیس والے مارے گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب ان علاقوں میں ڈاکو کُھلے عام گھوم رہے تھے۔ پھولن دیوی نے سنہ 1981 میں 20 لوگوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ جبکہ چھویرام ’یادو ذات‘ کے مسیحا کے طور پر ابھرا تھا اور وہ یادوؤں کے خلاف ہونے والے تمام مظالم کا بدلہ لینے کے لیے جانا جاتا تھا، لیکن اس کا ظلم و ستم اتنا بڑھ گیا کہ ان کی ہی ذات کے رہنما ملائم سنگھ یادو بھی ان کی حرکتوں سے پریشان رہنے لگے۔ ملائم سنگھ یادو بعد میں اترپردیش کے وزیراعلٰی اور ملک کے وزیر دفاع بھی بنے۔
حکومت نے چھویرام کے سر پر ایک لاکھ روپے کا انعام رکھا کہ جو کوئی بھی اس کا پتا دے گا اسے یہ انعام دیا جائے گا۔
چھویرام کون تھا؟
چھویرام اترپردیش کے ضلع مین پوری کے نصیرپور کے اوچھا گاؤں میں سنہ 1940 کے قریب پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ 20 سال کی عمر میں ڈاکو بن گیا اور رفتہ رفتہ اس کا خوف آس پاس کے علاقے تک پھیلتا گیا۔
پہلا تصادم
وزیراعلٰی وی پی سنگھ کے حکم کے بعد علی گنج کے اس وقت کے تھانہ انچارج راجپال سنگھ اس دن کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے جب انہیں مخبر سے چھویرام کے نتھوپور گاؤں میں ہونے کی اطلاع ملی۔
انسپکٹر راجپال سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گاؤں نتھو پور پہنچے، جہاں علاقے کے 60، 70 بدمعاش یکجا تھے۔ انسپکٹر راجپال نے ڈرے بغیر اپنی ٹیم کے ساتھ ان پر دھاوا بول دیا۔ گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس تصادم میں پولیس کے پاس گولیاں کم پڑ گئیں۔ جس کی وجہ سے ڈاکو چھویرام نے چاروں طرف سے محاصرہ کر کے انسپکٹر راجپال سنگھ سمیت 9 پولیس اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس میں تین دیہاتی بھی مارے گئے۔
اس کے بعد سنہ 1982 کے اوائل میں چھویرام نے ایٹا ضلع کی علی گنج تحصیل کے سرکل افسر کو اغوا کر لیا۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ انہیں معلوم ہوا کہ انتظامیہ ان کا سراغ حاصل کرنے کے لیے ان کے حامیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ چھویرام نے سرکل آفیسر کو اغوا کر کے ایک طرح سے حکومت کو چیلنج کیا تھا۔ اس وقت اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں جنہوں نے چھویرام کو ختم کرنے کا حکم دیا۔
دوسرا تصادم
ہندی اخبار امر اجالا کے مطابق انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق باغپت کے ریٹائرڈ پولیس افسر سوکرمپال بتاتے ہیں کہ یہ تین مارچ 1982 کا دن ہے جب پولیس کو پتہ چلا کہ ڈاکو چھویرام ایک جگہ چھپا ہے۔ پولیس وہاں پہنچی تو دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ وہ رننگ انکاؤنٹر تھا۔ تصادم صبح ساڑھے 9 بجے سے شام 5:30 بجے تک جاری رہا۔
ڈاکو آگے آگے بھاگ رہے تھے اور پولیس پیچھے۔ اسی طرح 10 ڈاکوؤں کو ایک ایک کر کے مار گرایا گیا، لیکن چھویرام اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ندی کے کنارے چھپ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایل ایم جی تھا۔ وہ پولیس کو نشانہ بناتے ہوئے مسلسل فائرنگ کر رہا تھا جبکہ وقت کے ساتھ پولیس کی نفری بڑھتی جا رہی تھی اور اس کی گولیاں ختم ہوتی جا رہی تھیں یہاں تک کہ وہ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ وہیں مارا گیا۔
چھویرام کو ہلاک کرنے والی ٹیم کو اعزاز و اکرام سے نوازا گیا کیونکہ اس کی موت کے ساتھ ہی اترپردیش پر ہر وقت منڈلانے والا خوف کا سایہ بھی ختم ہو گیا۔
چھویرام کی بیوی اپنے تین بیٹوں کے ساتھ اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئیں جہاں انہوں نے ان کی پرورش کی۔ ان کی محنت سے ان کا ایک بیٹا آج پولیس انسپکٹر ہے جبکہ باقی دو بڑے بھائی کسان ہیں۔