Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اچانک پھر غائب، گئے کہاں؟

بظاہر یہ لگتا تھا کہ شاید راستے میں رکھی گئی رکاوٹوں اور سکیورٹی فورسز کی وجہ سے شاید مظاہرین ڈی چوک پر نہ پہنچ سکیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یہ ایک ماہ میں دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی احتجاجی مہم کے سرخیل علی امین گنڈا پور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے اور ’لاپتا‘ ہو گئے۔
سنیچر کی صبح جب تحریک انصاف کا مارچ پشاور موٹروے پر برہان انٹرچینج سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا تو بظاہر یہ لگتا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے راستے میں رکھی گئی رکاوٹوں اور سکیورٹی فورسز کی وجہ سے شاید مظاہرین اپنی منزل ڈی چوک پر نہ پہنچ سکیں، اور اگر یہ اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو بھی گئے تو بہت جدوجہد اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ دن بھر کی آنکھ مچولی کے بعد ہی ایسا ممکن ہو سکے گا۔
تاہم حیران کن طور پر برہان انٹرچینج سے روانگی کے چند گھنٹوں بعد ہی علی امین گنڈاپور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک کے قریب اس وقت نمودار ہوئے جب ان کا باقی قافلہ ابھی شہر میں داخلے کے لیے رکاوٹوں سے نبردآزما تھا۔
یہاں چند منٹوں کی رونمائی کے بعد علی امین گنڈاپور ریڈ زون میں واقع خیبر پختونخوا ہاؤس چلے گئے اور اس کے تھوڑی ہی دیر بعد رینجرز اور ایف سی کے دستے بھی وہاں داخل ہو گئے، جس کے بعد پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
 اس دعوے کے کچھ دیر بعد خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’ان کا وزیراعلٰی سے رابطہ نہیں ہو رہا اور انہیں یرغمال بنایا گیا ہے۔‘
دوسری طرف وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’علی امین گنڈاپور کو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی حراست میں لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پھیلائی جانے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کے مطابق ’فورسز کی طرف سے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں گولی چلانے کی خبریں بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ مصدقہ اطلاعات آنے تک قیاس آرائیوں اور افواہوں سے گریز کیا جائے۔
علی امین گنڈاپور کی گرفتاری کی اطلاعات کو تقویت اس لیے بھی ملی تھیں کیونکہ ان کے ڈی چوک میں سامنے آنے کے وقت ہی اسلام آباد کی ایک عدالت نے غیرقانونی اسلحہ و شراب برآمدگی کیس میں ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور حکم دیا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے اگلی سماعت پر پیش کیا جائے۔
تاہم بیرسٹر محمد علی سیف نے بعدازاں ایک بیان میں کہا کہ ’علی امین گنڈاپور 25 اکتوبر تک ضمانت پر ہیں اور ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔‘
اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ وہ ڈی چوک سے خیبر پختونخوا ہاؤس آنے کے بعد پھر یہاں سے کہیں اور روانہ ہو گئے۔

پی ٹی آئی کے کارکن تنہا ہی سکیورٹی اہلکاروں سے برسر پیکار رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی آئی اور حکومت کی جانب سے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کی گرفتاری کے متضاد دعوؤں کے بعد ایک مرتبہ پھر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے کہ اگر وہ گرفتار نہیں ہوئے تو پھر ہیں کہاں؟ کیا وہ ایک مرتبہ پھر سکیورٹی حکام سے ملاقات کے لیے کسی خفیہ مقام پر گئے ہیں یا پھر انہیں غیراعلانیہ حراست میں رکھا جا رہا ہے؟
اس سے قبل جب 8 ستمبر کو علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد کے جلسے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت زبان استعمال کی تھی تو اس کے اگلے ہی روز وہ ’لاپتا‘ ہو گئے تھے، اور ساری رات غائب رہنے کے بعد علی الصبح پشاور پہنچے تھے۔
انہوں نے بعد میں کہا کہ وہ ایک اعلٰی سطحی سکیورٹی اجلاس میں شریک تھے اور جس مقام پر وہ موجود تھے وہاں پر موبائل فون کے سگنلز نہیں تھے۔
تاہم اس وقت بھی ان کے ’لاپتا‘ ہونے کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں سامنے آئی تھیں اور کچھ حلقوں نے دعوٰی کیا تھا کہ انہیں حراست میں رکھا گیا تھا جبکہ کچھ لوگوں کے مطابق انہیں چائے کی پیالی پر مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا۔
اس واقعے کے اگلے روز عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو میں خود یہ الزام لگایا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا تھا۔
 اسی طرح 21 ستمبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں بھی گنڈاپور پراسرار طور پر بالکل آخری وقت پر محض چند منٹوں کے لیے آئے اور پھر فوراً وہاں سے روانہ ہو گئے۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے بعدازاں ایک بیان میں کہا کہ ’علی امین گنڈاپور 25 اکتوبر تک ضمانت پر ہیں اور ان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔‘ (فائل فوٹو: ایکس)

پی ٹی آئی کے ہر احتجاج کے موقع پر علی امین گنڈاپور کی اس پراسرار نقل وحرکت کے بعد اب ان کے کردار پر بھی مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی دیگر قیادت 4 اور 5 اکتوبر کے اسلام آباد اور لاہور کے احتجاجی مظاہروں سے مکمل طور پر غائب ہے اور سڑکوں پر کارکن تنہا ہی سکیورٹی اہلکاروں سے برسر پیکار رہے ہیں۔
خاص کر صوبہ پنجاب کی پارٹی قیادت بالکل سامنے نہیں آئی اور نہ ہی بڑی تعداد میں کارکنوں کو باہر نکال سکی ہے۔
 اس بارے میں جب پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن شعیب شاہین سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے اپنے ارکان اسمبلی کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے احتجاج میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما اس بارے میں یہ توجیہہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ان کے بیشتر ارکان گرفتاری سے بچنے کے لیے انڈرگراونڈ ہیں اس لیے عوامی اجتماعات میں سامنے نہیں آتے، اور جو انڈرگراونڈ نہیں ہیں وہ بھی خود کو گرفتاری سے بچانے کے لیے دور رہتے ہیں۔
تاہم سنیچر کو رات گئے تک پی ٹی آئی کے کارکن ڈی چوک اور اسلام آباد کے کئی دوسرے مقامات پر آنسو گیس کی شیلنگ کا سامنا کرتے رہے اور آخری اطلاعات آنے تک احتجاج جاری تھا، جبکہ علی امین گنڈاپور کا بدستور کوئی پتا نہیں تھا۔
ان کی گرفتاری کے ابتدائی متضاد دعوؤں کے بعد حکومت اور تحریک انصاف دونوں جانب سے خاموشی ہے اور مزید تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس بارے میں سنیچر کی رات یا اتوار کی صبح صورت حال واضح ہو گی۔

شیئر: