کیا نیا عالمی اتحاد فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلوا سکتا ہے؟
کیا نیا عالمی اتحاد فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلوا سکتا ہے؟
اتوار 13 اکتوبر 2024 20:31
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ میں فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منصور نے دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے میں سعودی عرب کی قیادت کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی قیادت میں مملکت کی کوششیں فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے اہم ہیں۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئر پروگرام ’فرینکلی اسپیکنگ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم بین الاقوامی اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام اور بین الاقوامی قانون کے نفاذ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
یہ اتحاد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں قائم کیا گیا جس میں یورپی یونین اور ناروے سمیت اہم ممالک شامل ہیں۔
ریاض منصور نے کہا کہ ’سعودی عرب جو کچھ کر رہا ہے اور شہزادہ فیصل بن فرحان کی ذاتی شمولیت کے بہت مشکور ہیں۔‘
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں شہزادہ فیصل بن فرحان نے اتحاد کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ریاض منصور نے کہا کہ ’تقریباً 90 ممالک نے شرکت کی جن میں سے 90 وزرائے خارجہ شامل تھے۔ اتحاد کا مقصد اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہے، جو فلسطینی علاقوں پر قبضے کو ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘
انہوں نے اس وسیع بین الاقوامی حمایت کو متحرک کرنے پر سعودی قیادت کی تعریف کی اور کہا کہ اتحاد کے اگلے اقدامات ریاض میں ہونے والی آئندہ کانفرنس سے طے ہوں گے۔
ریاض منصور نے میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’عنقریب ریاض میں ایک کانفرنس ہوگی جس میں تمام ضروری اقدامات کرنے کی سمت میں آگے بڑھنے کے لیے ایکشن پلان کو اپنایا جائے گا تاکہ یا تو اسرائیل کو اس خواہش کی تعمیل کرنے کے لیے قائل کیا جائے یا مجبور کیا جائے کہ یہ قبضہ ختم ہونا ہے اور اسے کرنا ہے تاکہ دو ریاستی حل نکالا جا سکے۔‘
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دو ریاستی حل ہی خطے میں امن کا واحد قابل عمل راستہ ہے جس میں اسرائیل کے شانہ بشانہ فلسطینی ریاست کے قیام کی اہمیت پر زور دیا گیا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
منصور نے اس ضرورت پر بھی زور دیا کہ اسرائیل کو اس کے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے خاص طور پر غزہ میں جہاں گذشتہ ایک سال کے دوران تقریباً 42,000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے اس احتساب کے حصول میں بین الاقوامی قانونی میکانزم جیسے بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے کردار پر زور دیا۔
انہوں نے عالمی برادری کی ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ آئی سی جے کے فیصلے کے بعد ٹھوس کارروائی کرے۔ ’ہم نے جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں یہ کہا ہے کہ اس غیر قانونی قبضے کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ اسے 12 ماہ کے اندر ختم ہونا چاہیے۔‘
ریاض منصور نے غزہ میں فلسطینیوں کے مصائب کے خاتمے کے لیے جنگ بندی اور انسانی امداد کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
انہوں نے تنازع میں امریکہ کے کردار پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کیا اور الزام لگایا کہ واشنگٹن غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ امریکہ اسرائیل پر اپنی فوجی مہم روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا لیکن اس نے تشدد کو جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔
ریاض منصور نے کہا کہ ’امریکہ اس جنگ کو بہت پہلے روک سکتا تھا۔ اس بے عملی کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے فلسطینی عوام کے لیے سعودی عرب کی مالی مدد کی بھی تعریف کی، خاص طور پر غزہ میں، جہاں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے سعودی امداد بہت اہم رہی ہے۔
انہوں نے سعودی عرب کی طرف سے فلسطین کے لیے ماہانہ مالی امداد کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اسرائیلی قبضے میں فلسطینی عوام کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
ریاض منصور نے فلسطین کی حمایت کے لیے سعودی عرب کے مسلسل عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کی امداد اب تک 5.3 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حمایت صرف انسانی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے، جس سے یہ واضح پیغام جاتا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں عالمی برادری فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔