کوئٹہ میں ایک اجلاس میں بلوچستان، وفاقی حکومت اور فوج کے نمائندوں نے مل کر ایک ایسا صوبائی قانون بنانے پر مشاورت کی ہے جس میں عسکریت پسندی کے الزام میں پکڑے گئے افراد کو تفتیش کے لیے رکھا جاسکے گا۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب صوبے میں بدامنی اور عسکریت پسندی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ دو ہفتوں کے دوران مسافر ٹرین اور سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر حملوں میں 40 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان میں دہشت گردی، کیا فوجی آپریشن ہی آخری آپشن ہے؟Node ID: 887300
وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے جمعرات کو وزیراعلٰی سیکریٹریٹ کوئٹہ میں وفاقی وزرا، وفاقی محکموں کے سیکریٹریوں اور عسکری حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دی۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان حکومت لاپتا افراد کے حوالے سے ایک قانون کے لیے عرصے سے وفاقی حکومت سے مطالبہ کر رہی تھی تاکہ دہشت گردوں کو خصوصی سینٹرز میں رکھا جا سکے اور ان سے مؤثر تفتیش ممکن ہو۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو صوبائی اور وفاقی سیکریٹری قانون اور اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔
سرفراز بگٹی نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ’ہم ایسے صوبائی قوانین لا رہے ہیں جو ہماری سکیورٹی فورسز کو مضبوط کریں۔‘
وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کی گئی ہے، دہشت گرد پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں وہی اقدامات کرنا ہوں گے جو موجودہ خاص حالات کا تقاضا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’قانون آئین سے متصادم نہ ہو اسی لیےکمیٹی بنائی گئی ہے۔ہم ایسا کوئی قانون نہیں بنا رہے جس سے عام بلوچستانی کو مشکل ہو لیکن جو دہشت گرد ہیں انہیں ضرور مشکل اٹھانا پڑے گی۔‘
وزیراعلٰی کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر مختلف وفاقی وزرا اور سیکریٹریز بلوچستان آئے ہیں جو ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ اس سے قبل بلوچستان ہمیشہ مرکز کے پاس جا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے رونا روتا تھا لیکن اب پہلی بار مرکز کے اعلٰی حکام خود بلوچستان آکر ان مسائل پر گفتگو کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں 47 نکات پر تفصیلی بحث ہوئی جن میں امن و امان، سی ٹی ڈی کی مضبوطی، مالیات، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پلاننگ کمیشن، پی ٹی اے، ایف آئی اے سمیت مختلف محکموں کے امور اور مسائل شامل تھے۔ سرفراز بگٹی نے بتایا کہ ’بعض نکات پر فیصلے ہو چکے ہیں، بعض پر مزید غور کیا جائے گا جبکہ کچھ کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا ہے۔‘
وزیراعلٰی نے کہا کہ ’اب بلوچستان کے فیصلے کوئٹہ میں ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے نمائندے اسی طرح آتے رہیں گے۔ دو مہینوں بعد پھر اس طرز کا اجلاس ہوگا جس میں پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔‘
’اٹھارہویں ترمیم میں بلوچستان کے عوام کو وہ خود مختاری مل گئی ہے جو وہ توقع بھی نہیں کر رہے تھے۔ وفاقی وزرا کی آمد کو سراہا جانا چاہیے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان کا بلوچستان آنا بنتا نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ عسکری اور غیر عسکری دونوں محاذ پر لڑی جائے گی۔ عسکری حکمتِ عملی ظاہر نہیں کی جا سکتی لیکن جلد سب کو اور دہشت گردوں کو بھی نظر آجائے گا۔ غیر عسکری محاذ یہی ہے جس کے لیے آج ہم جمع ہوئے ہیں۔‘
وزیراعلٰی کے مطابق ’سکیورٹی اور ترقی کے معاملات ساتھ ساتھ چلیں گے، اس میں کچھ امور اور کردار وفاق اور کچھ صوبائی حکومت سے متعلق ہیں۔ہم ساری چیزوں کو ملاکر دہشت گردی، احساس محرومی اور غیر متوازی ترقی کے خاتمے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔‘

نیوز کانفرنس کے موقع پر وزیراعلٰی کے ہمراہ وفاقی وزرا محمد اورنگزیب، سردار اویس لغاری، احد چیمہ، علی پرویز ملک اور شزا فاطمہ اور دیگر موجود تھے، تاہم انہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات نہیں دیے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق اس سے قبل ہونے والے اجلاس میں وزارت خارجہ، داخلہ، خزانہ، تجارت، قانون و انصاف، توانائی، ریلوے اور مواصلات کے وزرا اور سیکریٹریز نے شرکت کی۔
وزارت ترقی و منصوبہ بندی، اطلاعات و نشریات، پیٹرولیم، وزارت ہوا بازی، بحری امور، پی ٹی اے، ایف بی آر، اسٹیبلشمنٹ سمیت مختلف وفاقی محکموں کے وزرا اور نمائندوں، صوبائی وزرا اور افسران بھی اجلاس میں موجود تھے۔ وفاقی محکموں کی جانب سے اجلاس کو بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں لاپتا افراد سے متعلق صوبائی سطح پر موثر قانون سازی، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر سی ٹی ڈی کو مزید فعال بنانے،بلوچستان میں انسداد سمگلنگ مہم کو موثر بنانے اور دہشت گردی اور ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف موثر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
وزارت خارجہ کی جانب سے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کی معاونت میں ملوث ممالک کے خلاف سفارتی اقدامات سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
آئی جی ریلوے پولیس رائے طاہر نے بلوچستان میں ریلوے ٹریک اور سفری سہولیات کو محفوظ بنانے کے حوالے سے بریفنگ دی۔

انہوں نے ریلوے پولیس کی استعداد کار میں اضافے اور جدید دفاعی سہولیات کی فراہمی پر تجویز دی۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے بلوچستان میں افسران کی کمی کو پورا کرنے اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے گریڈ 17 سے گریڈ 21 کی 108 خالی اسامیوں پر تقرری کی یقین دہانی کرائی گئی۔
اجلاس میں بلوچستان کی حدود میں چھ ہزار کے لگ بھگ فشنگ بوٹس کی ون ٹائم ایمنسٹی رجسٹریشن کی تجویز دی گئی۔
غیر قانونی ٹرالنگ روکنے کے لیے ٹریکنگ سسٹم، کنٹرول روم اور ٹھوس اقدامات کرنے پر غور کیا گیا۔وزرات پیٹرولیم کی جانب سے پی پی ایل کے ذمہ واجب الادا تین سال کے واجبات کی بلوچستان کو ادائیگی پر اتفاق کیا گیا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں بلوچستان وائٹ کالر کرائم، مالیاتی تبادلوں اور سائبر کرائم کے تدارک کے لیے ایف آئی اے کو متحرک کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
اس سلسلے میں ہنڈی اور غیر قانونی ترسیلاتِ زر کے لیے فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947 میں ترمیم پر اتفاق کیا گیا۔