Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں موٹر سائیکل چوری کرنے والے گینگ افغانستان تک کیسے پھیلے ہوئے ہیں؟

پولیس کے مطابق چوری شدہ 125 موٹرسائیکل کے پکڑے جانے کے ڈر سے سپیئرپارٹس بازار میں بیچ دیے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کے شہر لاہور سے گزشہ مہینے ایک ٹرک دریائے راوی پر موجود سگیاں پل سے پکڑا گیا۔ اس ٹرک میں 30 کے قریب موٹر سائیکلیں لدی ہوئی تھی۔ صورت حال اس وقت بدل گئی جب پولیس کو یہ پتا چلا کہ اس ٹرک پر لدی ہوئی موٹر سائیکلیں پولیس کے ہی انسپکٹر شیخ عامر کی ہیں۔
پولیس نے ان موٹر سائیکلوں کو قبضے میں لے لیا اور انسپکٹر شیخ عامر پر مقدمہ بھی درج کر لیا۔ بعد ازاں تفتیش میں پتا چلا کہ وہ موٹرسائیکلیں پولیس کے مال خانوں سے نکالی گئیں اور ان کا سودا ایک کباڑیے سے کیا گیا تھا۔
چاروں صوبوں سے دستیاب معلومات کے مطابق چوری شدہ موٹر سائیکلیں کباڑیوں کو بیچنا اور ان کے پرزے بلیک مارکیٹ میں سمگلنگ کے لیے فروخت کرنا ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے۔
لاہور میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری کو روکنے کے لیے الگ سے کام کرنے والے پولیس کے ڈیپارٹمنٹ اینٹی وہیکل لفٹنگ (اے وی ایل) کے سربراہ ڈی ایس پی زاہد حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم نے جتنے موٹر سائیکل چور گینگ گرفتار کیے ہیں ان سے تفتیش سے ہم ایک پورا زائچہ بنا سکتے ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر موٹر سائیکل چوری ہوتی کیوں ہیں اور کس طرح ایک مساوی نظام کے ذریعے اس جرم کو ایک کاروبار بنا دیا گیا۔ کباڑیوں کو وہ موٹر سائیکل فروخت کی جاتی ہیں جو پرانی ہو گئی ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جس انسپکٹر کا ذکر آپ کر رہے ہیں اس نے 130 کے قریب پرانی موٹر سائیکلیں جو پولیس کے مال خانوں میں خراب ہو رہی تھیں ان کو نکال کر فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے پیچھے ہمیں کوئی نیٹ ورک تو نہیں ملا البتہ اس نے طریقہ وہی استعمال کیا جو پرانی موٹرسائیکلوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ یعنی ایسے کباڑی کو ڈھونڈنا جو چوری شدہ مال سکریپ کے بھاؤ پر خریدتے ہیں۔‘
ڈی ایس پی زاہد حسین نے بتایا کہ اصل کام 125 سی سی نئی موٹر سائیکلوں کا ہے۔ ’ہم نے ایسے گینگ پکڑے ہیں جو لاہور سے موٹر سائیکل چوری کر کے پہلے جنوبی پنجاب اور پھر بلوچستان کے ضلع ژوب اور اس کے بعد افغانستان سمگل کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ خود مختار نیٹ ورک ہیں چوری کرنے والے اور ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب ڈی جی خان وغیرہ لے کر جانے والے اور ہیں اور اسی طرح ژوب اور پھر افغانستان والے اور ہیں۔‘
لاہور پولیس کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 9 مہینوں سے شہر سے 14674 موٹرسائیکلوں کے مقدمات درج ہوئے جن میں 14188 چوری کے اور باقی ڈکیتی کے ہیں۔ جبکہ پولیس 3658 موٹرسائیکلیں ریکور کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اے وی ایل لاہور چیف کے مطابق دوسرے نمبر پر موٹرسائیکلوں کے پرزہ جات کو بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنا بھی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ’آپ کو مارکیٹ میں کابلی پرزوں کے نام سے چیزیں ملتی ہیں اور اس کے سب سے مشہور مارکیٹ بلال گنج ہے۔ موٹر سائیکلوں کو کھول کے ان کے پرزے مارکیٹ میں بیچنےکو ٹریک کرنا مشکل ہوتا ہے۔ کیوں کہ پرزوں سے شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہ تیسرے نمبر صحیح سلامت موٹر سائیکلیں چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں میں چلتی ہیں جہاں پولیس اور ڈیجیٹل نظام بھی کمزور ہے۔‘
’اور ایک ایک موٹر سائیکل روک کر اس کے انجن اور چیسز نمبر چیک کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لاہور سے چوری کی گئی موٹر سائیکل اسی شہر میں نہیں چلائی جا سکتی۔ اسے لامحالہ باہر بیچا جاتا ہے زیادہ تر یہ موٹر سائیکلیں 70 سی سی ہوتی ہیں۔ اور اس خرید وفروخت کے لیے بھی ایک مارکیٹ کام کر رہی ہے ہم آئے روز ایسے گینگز کو پکڑتے ہیں ابھی 30 ستمبر کو ایک گینگ پکڑا ہے جس سے دس موٹر سائیکلیں برآمد ہوئیں۔‘

لاہور میں پرانی موٹر سائیکلیں بیچنے والا ایک پولیس انسپکٹر پکڑا گیا۔ فائل فوٹو: پنجاب پولیس

پولیس کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں میں چوری کی وارداتیں بھی زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر درمیانے درجے کے شہر ہیں جبکہ قصبوں اور دیہاتوں میں یہ اوسط بہت کم ہے۔

سندھ کی صورت حال

پنجاب جیسی صورتحال سندھ میں بھی ہے۔ سب سے زیادہ موٹر سائیکل چوری کی وارداتیں سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوتی ہیں۔ کراچی پولیس کے مطابق شہر سے چوری ہونے والی موٹرسائیکل صوبے سے باہر جانے کے معاملات رپورٹ ہوئے ہیں، کراچی سے چھینی یا چوری کی گئی موٹر سائیکلیں بلوچستان کے علاقے لسبیلہ سمیت دیگر مقامات پر فروخت کرنے والے گروہ شہر میں کام کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ شہر میں موٹرسائیکل لفٹرز موٹر سائیکلوں کا سامان مقامی مارکیٹ میں بھی بیچتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے شہر میں استعمال شدہ موٹر سائیکل کے سامان کی خرید و فروخت پر سختی کر دی ہے۔ شہر کی شیر شاہ مارکیٹ، رنچھوڑ لائن مارکیٹ، یو پی مارکیٹ سمیت دیگر مقامات پر پولیس نے کباڑیوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں اور ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔
کباڑ مارکیٹ نے پولیس کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چوری کی سامان کی خرید و فروخت کی آڑ میں قانونی طور پر سپیئر پارٹس کا کام کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
کراچی شہر میں زیادہ سوزوکی کی 110 اور 150 سی سی چوری اور چھینے جانے کے واقعات رپورٹ کیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا مہنگا سامان ہے۔ لیکن پولیس کے فراہم کردہ کراچی سے متعلق اعداد وشمار حیران کن ہیں۔ گزشتہ 9 مہینوں میں کل 39031 مقدمات درج ہوئے جن میں سے 32510 چوری کے جبکہ 6521 موٹرسائیکل ڈکیتی کے ذریعے چھینی گئیں۔

پشاور میں کیا ہو رہا ہے؟

پشاور پولیس کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق رواں سال شہر میں موٹرسائیکل چوری کے 202 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں 312 ملزمان پر مقدمات درج کیے گئے چوری کے ان واقعات میں 236ملزمان گرفتار ہوئے، جبکہ پولیس کے مطابق پشاور میں رواں سال موٹرسائیکل چھیننے کے 106 واردات رپورٹ ہوئے جس میں 260 ملزمان پر مقدمہ درج ہوا سنیچنگ کے واقعات میں اب تک 142 ملزمان گرفتار کئے گئے پولیس حکام نے موقف اپنایا کہ چوری اور سنیچنگ کے واقعات میں 125 موٹرسائیکلوں کی تعداد زیادہ ہے تاہم پولیس نے 35 فیصد کیسز میں ملزمان  سے موٹرسائیکلیں برآمد کی گئی۔

پشاور پولیس کے مطابق شہر کے موٹرسائیکل بازار میں چوری شدہ موٹرسائیکلیں بھی فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں۔ فوٹو: اسلام آباد پولیس

پولیس کا موقف ہے کہ چوری کے موٹرسائیکل زیادہ تر پشاور کے قریبی علاقوں میں آدھے داموں میں فروخت کی جاتی ہیں ان علاقوں میں ضلع مہمند اور ضلع خیبر کے علاقے شامل ہیں جو سابق قبائلی علاقہ جات ہیں تاہم مردان ، چارسدہ کے علاقوں میں بھی چوری کے موٹرسائیکل بیچی جاتی ہے۔
پولیس کے مطابق چوری شدہ  125 موٹرسائیکل کے پکڑے جانے کے ڈر سے سپیئرپارٹس بازار میں بیچ دیے جاتے ہیں جن کی قیمت 70 موٹرسائیکل سے زیادہ ہے اس لئے 125 بائیک کی چوری زیادہ ہوتی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق پشاور میں سرکی گیٹ پر روزانہ موٹرسائیکلوں کا بازار لگتا ہے جس میں اکثر چوری شدہ موٹرسائیکل شہری پر فروخت کی جاتی ہے, پولیس نے ایسے متعدد کیس ٹریس کیے جس میں چوری کے موٹرسایئکل  جعلی کاغذات کے ساتھ  شہری پر فروخت ہوئی ہیں

بلوچستان میں کیا صورتحال ہے؟

سب سے دلچسپ بات پنجاب اور سندھ سے چوری ہونے والی موٹر سائیکلوں کا پولیس کے مطابق کھرا بلوچستان کے مختلف شہروں میں نکلنا ہے تاہم صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں سب سے کم بائیک چوری یا ڈکیتی رپورٹ ہوتی ہے۔
بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں اپریل سے ستمبر تک چھ ماہ کے دوران موٹر سائیکل چوری اور چھیننے کی 503 وارداتیں ہوئیں۔
پولیس کے مطابق ان وارداتوں میں 948 ملزمان کے ملوث ہونے کا پتہ چلا ہے جن میں سے 353 کو گرفتار کیا گیا جبکہ باقی ملزمان کی تلاش اور گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پولیس کے مطابق اس عرصے میں چوری اور چھینی گئیں  185 موٹر سائیکلیں برآمد بھی کی گئیں۔
کوئٹہ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایس ایچ او اور سب ڈویژنل افسر کی حیثیت سے کام کرنے والے پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ موٹر سائیکلوں کی چوری اور چھیننے، اسے ملزمان سے خریدنے اور پھر آگے فروخت  کرنے میں الگ الگ نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں۔ چوری کرنے والے اسلحہ کے زور پر چھیننے کی وارداتیں نہیں کرتے۔ اسی طرح چوری کی موٹر سائیکلیں خریدنےوالے چھینی گئیں موٹر سائیکلیں نہیں خریدتے۔ یہ سب الگ الگ نیٹ ورکس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چوری اور چھینی گئیں موٹر سائیکلیں کچلاک، قلعہ عبداللہ، جنگل پیر علیزئی، گلستان، مستونگ، نوشکی، پنجگور اور دوسرے ایسے شہروں  میں   فروخت کردی جاتی ہیں جہاں   موٹر سائیکل  چلانے کے لیے  رجسٹریشن، نمبر پلیٹ، لائسنس اور دیگر دستاویزات کی کوئی پابندی نہیں۔ 
ان کے بقول صوبے کے بیشتر شہروں میں ٹریفک پولیس اور اس کا نظام ہی قائم نہیں۔ وہاں موٹر سائیکل کی رجسٹریشن، نمبر پلیٹ لگانے یا پولیس اور لیویز کی جانب سے دستاویزات چیک کرنے کا تصور ہی موجود نہیں اس لیے چوری شدہ اور چھینی گئیں موٹر سائیکلیں وہاں چلانا کوئی مشکل نہیں۔
پولیس افسر نے انکشاف کیا کہ نوشکی اور کچھ دیگر شہروں میں چوری اور چھینی گئیں موٹر سائیکلوں کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ منڈیاں لگتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی موٹر سائیکلیں ایرانی تیل کی سمگلنگ میں بھی استعمال ہوتی ہیں کیونکہ غیر ہموار اور پہاڑی راستوں پر زیادہ وزن لے جانے کی وجہ سے  موٹرسائیکلیں جلدی خراب ہوجاتی ہیں تو سمگلرز سستی موٹرسائیکلوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
پولیس افسر کے مطابق پہلے بلوچستان سے چوری  کی گئیں زیادہ تر موٹر سائیکلیں خاص کر 125 ہنڈا افغانستان  لے جائی جاتی تھیں جہاں طالبان  جنگجو انہیں جنگ میں استعمال کرتے تھے  تاہم سرحد پر باڑ لگنے سے افغانستان  منتقلی میں کمی آئی ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد بلوچ تسلیم کرتے ہیں کہ کوئٹہ میں سٹریٹ کرائمز میں  اضافہ ہوا ہے   تاہم اس پر قابو پانے کے لیے پولیس کی جانب سے کوششیں بھی جاری ہیں۔ بڑی تعداد میں ملزمان پکڑے بھی گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کی ڈائنامکس باقی شہروں سے مختلف ہے یہاں ہر وقت دھرنے، احتجاج چل رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پولیس کی توجہ بٹ جاتی ہے۔
انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ کوئٹہ سے چوری کی گئیں موٹرسائیکلیں کچلاک، گلستان، سندھ کے مختلف شہروں حتیٰ کہ افغانستان منتقل کی جاتی ہیں۔

شیئر: