Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مخصوص نشستوں کے مقدمے میں 8 ججز کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں: قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس کے مطابق جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیر التوا سمجھا جائے گا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ آٹھ اکثریتی ججز کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
منگل کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے 14 صفحات کے اختلافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا کہ آٹھ اکثریتی ججز نے مخصوص نشستوں کے مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے اپیلیں نمٹائی نہیں۔
چیف جسٹس کے مطابق جب اپیلیں نمٹائی نہیں گئیں تو کیس زیر التوا سمجھا جائے گا، آٹھ ججز نے اپیلیں زیر التوا رکھ کر پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کو نئی درخواستیں دائر کرنے کا کہا۔
چیف جسٹس کے نوٹ کے مطابق حتمی فیصلہ نہیں ہوا اس لیے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے سے توہین عدالت نہیں لگے گی۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس میں دیگر ججز سے اختلاف کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ کوئی بھی قانون ختم کر سکتی اور نیا قانون بنا سکتی ہے، تاہم سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے رائے بدل لی، اور جنرل ر قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ توسیع کا فیصلہ دے دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مطابق قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ ’عمران خان، فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور قمر جاوید باجوہ کی توسیع چاہتے تھے۔ آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کی مدت تین سال کرنے سمیت آئینی ترامیم کی بات چل رہی تھی۔
’رائے دی کہ مجوزہ آئینی ترامیم سے متاثر یا فائدہ لینے والے ججز بنچ کا حصہ نہ بنیں، ججز کمیٹی اجلاس میں بینچ کی تشکیل سے متعلق میری رائے سے اتفاق نہیں کیا گیا، اس لیے ترامیم سے متاثر ہونے والے ججز کو الگ نہ کرنے پر فل کورٹ تشکیل دینے کی رائے دی۔‘

شیئر: