Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھڑوں میں تقسیم پی ٹی آئی، کیا پارٹی میں اقتدار کی نئی جنگ شروع ہو گئی؟

سیاسی مبصرین کے مطابق بشری بی بی ضرور پارٹی کے معاملات دیکھیں گی اور اس بات کا عندیہ علیمہ خان بھی دے چکی ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شاید پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ مقبول ہے اور اس کے معاملات کیسے چل رہے ہیں یہ بھی سوشل میڈیا سے ہی پتہ چلتا ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی کے مختلف دھڑے آپس میں برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ اور پارٹی کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اس نئی دھڑے بندی کا آغاز اس وقت ہوا جب عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی کال دی گئی، اور اس میں مرکزی قیادت نظر نہ آئی۔ اور وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور بھی اسلام آباد کے بلیو ایریا پہنچنے کے بعد ’روپوش‘ ہو گئے۔
پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کی خبریں کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب پارٹی اپنے جوبن پر تھی تو شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، بشری بی بی، علیمہ خان، اسد قیصر اور میاں اسلم سمیت کئی رہنما اپنا مخصوص اثر ورسوخ رکھتے تھے جو بعد میں عیاں بھی ہوا۔ اور اب جب تحریک انصاف کی قیادت زیرِعتاب ہے تو ان دھڑوں کی ایک نئی جہت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس وقت وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور ایک فیصلہ کن حیثیت سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں جبکہ ایک دھڑا شیر افضل مروت کا ہے جو اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتے ہیں۔
پارٹی کے سابق رہنما فواد چوہدری نے ان دنوں تحریک انصاف کے معاملات پر کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بشری بی بی اور علیمہ خان کو مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق بشری بی بی ضرور پارٹی کے معاملات دیکھیں گی اور اس بات کا عندیہ علیمہ خان بھی دے چکی ہیں۔ سلمان اکرم راجہ جو پی ٹی آئی میں انتخابات سے کچھ عرصہ قبل شامل ہوئے ہیں اور عمران خان کے وکیل بھی ہیں، انہوں نے وکلا کے پینل سے فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری کو نکال دیا۔ بعدازاں یہ خبریں سامنے آئیں کہ عمران خان نے دونوں کی صلح کروا دی ہے۔ فیصل چوہدری پر الزام تھا کہ وہ فواد چوہدری کی واپسی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔

فواد چوہدری نے ان دنوں تحریک انصاف کے معاملات پر کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

26 ویں آئینی ترمیم میں پیش آنے والے واقعات کے بعد شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی بھی پارٹی میں ایک نئے دھڑے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں حماد اظہر اور میاں اسلم کے دونوں دھڑوں کی لڑائی خود حماد اظہر نے نام لیے بغیر سوشل میڈیا پر بیان کی جو آج بھی ویسے ہی جاری ہے۔
آخری دھڑا بیرون ملک مقیم پاکستان تحریک اںصاف کے رہنماؤں کا ہے جن میں ڈاکٹر شہباز گل سرفہرست ہیں۔ صحافی اجمل جامی نے پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کے اندر اس وقت جو سب سے زیادہ مسئلہ ہے وہ ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی ہے۔ ہر رہنما دوسرے کو چور نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر لیڈر اب اپنے اپنے دھڑے کو تگڑا کر رہا ہے اور خود کو دوسروں سے زیادہ پارٹی کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی قیادت میں بداعتمادی ایک منظم طریقے سے پیدا کی جا رہی ہے یا یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ خود پارٹی کے اندر لوگ اس کو منظم طریقے سے جوڑ رہے ہیں۔ جو لڑائی قیادت میں دکھائی دے رہی ہے وہی لڑائی تحریک انصاف کا بیانیہ چلانے والے یوٹیوبرز میں بھی نظر آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہہ کر پکارا جا رہا ہے، الزامات لگائے جا رہے ہیں۔‘

اس وقت وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور ایک فیصلہ کن حیثیت سے پی ٹی آئی کے معاملات چلا رہے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی سمجھتے ہیں کہ ’دھڑے بندیوں کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ اب بشری بی بی جب معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں گی اور سب کو پتہ ہے کہ ان کا فیصلہ آخری ہو گا کیونکہ وہ عمران خان کے بہت قریب ہیں۔ ان کو طاقتور ہوتا دیکھنا کئی لوگوں کو پسند نہیں آئے گا اور پارٹی کے اندر اقتدار کی نئی جنگ شروع ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ یہی چاہتی تھی کہ یہ پارٹی منظم نہ رہے اور میرے خیال میں اب ایسا ہو چکا ہے اور اس کو سنبھالنا اب مشکل ہے۔‘

شیئر: