جنگ شروع ہونے سے پہلے اوسطاً 500 امدادی ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہو رہے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ نے عسکری فنڈنگ کو غزہ میں امداد کی رسائی سے مشروط کرتے ہوئے اسرائیل کو 30 دن کی مہلت دی تھی تاہم دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی تل ابیب کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات سامنے نہیں آئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے جاری حالیہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اکتوبر کے آخر تک روزانہ اوسطاً صرف 71 ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے تھے جو غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔
گزشتہ ماہ 13 اکتوبر کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو لکھے گئے مشترکہ خط میں مطالبہ کیا تھا کہ غزہ میں روزانہ 350 امدادی ٹرکوں کے داخلے کی اجازت دی جائے۔
خط میں نیتن یاہو کو 30 دن کی مہلت دیتے ہوئے متنبہ کیا گیا تھا کہ غزہ میں پہنچائی جانے والی امداد میں اضافہ نہ کرنے کی صورت میں اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت بند کر دی جائے گی۔
جمعرات کو انٹونی بلنکن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ خارجہ اور دفاع خط کے جواب میں اسرائیلی اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انٹونی بلنکن نے کہا ’پیش رفت ہوئی ہے لیکن کافی نہیں ہے اور ہم روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں کہ اسرائیل وہ سب کچھ کرے جو یہ یقینی بنانے کے لیے کرنا چاہیے کہ امداد غزہ کے اندر ان لوگوں تک پہنچے جنہیں اس کی ضرورت ہے۔‘
’یہ کافی نہیں ہے کہ غزہ میں ٹرک پہنچ جائیں۔ بلکہ یہ اہم ہے کہ ٹرکوں میں جو لایا جا رہا ہے وہ غزہ کے اندر مؤثر طریقے سے تقسیم بھی ہو۔‘
اسرائیل کی حمایت ریپبلکن اور ڈیموکریٹ ووٹرز کے نزدیک بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے اسرائیل کو عسکری فنڈنگ کی فراہمی پر پابندی عائد کرنا مشکلات پیدا کر سکتا ہے بالخصوص جب صدارتی انتخابات میں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی مہم میں اضافے اور امداد پر پابندیوں کے باعث اکتوبر کے وسط سے تمام خوراک اور دیکھ بھال کے وسائل کو آبادی والے علاقوں تک پہنچنے سے روک دیا ہے۔ اداروں کے مطابق آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں قحط کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی گروپس کی 15 تنظیموں کے سربراہان نے جمعے کو خبردار کیا تھا کہ ’شمالی غزہ میں پیدا ہونے والی صورتحال تباہ کن ہو سکتی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے اعتراضات کے باوجود اسرائیلی ارکان پارلیمان نے فلسطینی مہاجرین کے لیے مختص ادارے کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے اوسطاً 500 امدادی ٹرک روزانہ غزہ میں داخل ہو رہے تھے۔ امدادی گروپس کا کہنا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی کے لیے کم از کم اتنی تعداد میں امدادی ٹرکوں کی ضرورت ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ ٹرکوں کے غزہ میں داخل ہونے کے بعد بھی امداد کو گودام تک پہنچانے اور لوگوں میں بانٹنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ امدادی گروپس کے مطابق اس کی وجہ اسرائیل کی جانب سے پروسیسنگ میں سستی، ترسیل پر پابندی، لاقانونیت اور دیگر رکاوٹیں شامل ہیں۔
غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے ذمہ دار اسرائیلی عسکری ادارے (سی او جی اے ٹی) کے ڈیٹا کے مطابق اگست اور ستمبر میں امداد ایک تہائی سے بھی کم سطح کو پہنچ گئی ہے۔ ستمبر میں 87 ہزار 446 ٹن امداد غزہ کی پٹی میں داخل ہوئی جبکہ اکتوبر میں اس کی مقدار کم ہو کر 26 ہزار 399 ٹن رہ گئی۔
زمینی حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ انٹونی بلنکن اور لائیڈ آسٹن کی جانب سے دی گئی مہلت تک اسرائیل خاطر خواہ اقدامات لینے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی جنگی اخراجات پر ایک تحقیق کے مطابق امریکہ، اسرائیل کو ہتھیار اور دیگر فوجی امداد فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور غزہ کی جنگ کے دوران تقریباً 18 ارب ڈالر دیے گئے۔