گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، بے نظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کی کہانی
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے، بے نظیر کی دوسری حکومت کے خاتمے کی کہانی
منگل 5 نومبر 2024 7:14
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بے نظیر بھٹو کی یہ تصویر 2007 میں نوشہرہ میں اتخابی مہم کے دوران لی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اسلام آباد نومبر میں کافی خنک اور سرد ہو جایا کرتا تھا، لیکن یہ بھی اتفاق کہہ لیجیے کہ اس وقت بھی سیاسی درجہ حرارت اس نہج پر پہنچ چکا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے ایوانوں کی راہداریوں میں گرما گرم بحث مباحثے اور سردیوں کی طویل ہوتی راتوں کی طرح سیاسی محاذ آرائی بھی طویل ہوتی جا رہی تھیں اور صورت حال کسی طوفان کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔
لیکن اسے اقتدار کا کھیل کہیے یا بدقسمتی کہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور اقتدار کے خاتمے میں سیاسی مخالفین سے زیادہ اپنے بھائیوں، قابل اعتماد رفیقوں اور خاندان کے اندر طویل ہوتی لڑائیوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس وقت کی حزب مخالف نے اس صورت کا فائدہ تو اٹھایا لیکن دن بدن کمزور ہوتی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرتی ہوئی دیوار سمجھ کر دھکا نہیں دیا بلکہ اپنوں کی مہربانی سے بے نظیر حکومت اپنی ہی جماعت کے بوجھ تلے دب گئی۔
یہ بھی محض اتفاق ہی سمجھیے کہ جب پانچ نومبر 1996 کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ کیا گیا، اس وقت امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو رہے تھے اور اب بھی صدارتی انتخابات سر پر ہیں۔
پاکستان میں سیاسی حالات کافی عرصے سے انتشار کا شکار تھے اور تجزیہ کار کسی بڑی تبدیلی کا عندیہ دے رہے تھے، لیکن عوام کے لیے یہ فیصلہ اچانک اور دھماکے کی مانند تھا۔ فاروق لغاری کی جانب سے بے نظیر حکومت کا خاتمہ حیران کن اس لیے تھا کیونکہ لغاری کا تعلق خود بے نظیر کی پارٹی سے تھا، اور وہ بے نظیر کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ بے نظیر نے اپنی حکومت پر صدر کی طرف سے کسی مداخلت کا راستہ بند کرنے اور 58 ٹو بی کے وار سے بچنے کے لیے فاروق لغاری کو ایوان صدر پہنچایا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مرتضیٰ بھٹو کے قتل، فاروق لغاری کے بدلتے رویے، عدلیہ کے ساتھ تناؤ اور فوج کے اندرونی مسائل نے بالآخر بے نظیر حکومت کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔
فاروق لغاری، بے نظیر کے بھائی سے 58 ٹو بی کی تلوار چلانے والے ناپسندیدہ صدر تک
چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے فاروق لغاری بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے اور بے نظیر انھیں بھائی کہہ کر بلاتی تھیں۔
پاکستان کی صحافتی اور سیاسی تاریخ میں ایک واقعہ کئی محفلوں میں سنایا جاتا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو کو معلوم ہوا کہ فاروق لغاری ان کی حکومت ختم کرنے جا رہے ہیں تو وہ ایوان صدر میں ان سے ملنے گئیں۔ گفتگو کے دوران جب بے نظیر نے انھیں مسٹر لغاری یا مسٹر پریذیڈنٹ کے بجائے فاروق بھائی کی تکرار کی تو فاروق لغاری نے ملٹری سیکریٹری سے کہا کہ بیگم صاحبہ سے کہیں کہ ان کی نند ان سے ملنے کے لیے آئی ہیں۔
فاروق لغاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیر خزانہ بننا چاہتے تھے لیکن بے نظیر بھٹو نے انھیں قابل اعتماد جانتے ہوئے انھیں صدر منتخب کروایا اور اس مقصد کے لیے انھوں نے ذاتی طور پر محنت کی اور سابق صدر غلام اسحاق خان کو بطور صدارتی امیدوار اپنے کاغذات واپس لینے پر قائل کیا۔
لیکن فاروق لغاری نے حکومت پر کرپشن کے آئے روز لگتے ہوئے الزامات، امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور بھٹو خاندان کی اندرونی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بے نظیر حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
یوں ایک وقت میں بے نظیر بھٹو کے پسندیدہ ترین اور منہ بولے بھائی فاروق لغاری ان کے لیے ناپسندیدہ ترین اور تاحیات قابل نفرت کردار بن گئے۔ ان کی وفات پر آصف زرداری کی جانب سے اظہار افسوس کا بیان بھی ایسا تھا کہ جس میں پیپلز پارٹی کی فاروق لغاری سے متعلق خیالات کی عکاسی ہوتی تھی۔
صوبوں اور عدلیہ کے ساتھ تنازع
بے نظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے سال میں ہی انہوں نے عدلیہ میں اپنی مرضی کے چیف جسٹس کی تقرری کا موقع حاصل کر لیا۔ 5 جون 1994 کو دو سینیئر ججز کو نظرانداز کر کے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ اسی سال حکومت نے آرٹیکل 234 کے تحت صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں گورنر راج لگا کر مسلم لیگ (ن) اور اے این پی کی مخلوط حکومت کو معطل کر دیا اور پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد شیرپاؤ کو وزیراعلیٰ مقرر کیا۔
پنجاب میں بھی ایک سال بعد ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی حمایت سے بننے والی مسلم لیگ (ج) کی حکومت کے وزیراعلیٰ منظور وٹو کے خلاف مرکز نے آرٹیکل 234 کے تحت گورنر راج نافذ کر دیا۔ بعد میں سردار عارف نکئی کو وزیراعلیٰ بنایا گیا، لیکن منظور وٹو نے لاہور ہائی کورٹ سے اپنی بحالی کی درخواست دی اور عدالت نے ایک سال بعد ان کی حکومت کو بحال کر دیا۔
پیپلز پارٹی پر الزام لگایا گیا کہ اس نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں اپنے حامی ججز کی تقرری کی اور کئی غیر موزوں افراد کو ججز بنایا۔ جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سندھ ہائی کورٹ سے وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا اور سندھ و لاہور ہائی کورٹ میں پسندیدہ افراد کو ججز مقرر کیا گیا۔
حامد خان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کیے گئے 20 ججز میں سے 10 بمشکل میرٹ پر پورا اترتے تھے۔ اس پر وہاب الخیری نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جس کے نتیجے میں غیر موزوں افراد کو برطرف کر دیا گیا۔
بیگم نصرت بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے اختلافات اور مرتضیٰ کا قتل
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں بھٹو خاندان مسلسل باہمی چپقلش کا شکار رہا۔ ساری زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی رہنے والی بیگم نصرت بھٹو بھی بے نظیر کے سیاسی فیصلوں بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں شاکی بن گئی تھیں۔
ان کے اختلاف کی وجہ میر مرتضیٰ بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی جانشین بننا بھی تھا۔ مرتضیٰ بھٹو نے ضیاالحق کے دور میں الذوالفقار کے ذریعے حکومت کے خلاف مزاحمت کی، مگر 1993 میں وہ پاکستان واپس آ گئے۔ بے نظیر بھٹو اور ان کے درمیان سیاسی جانشینی کے معاملے پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ نصرت بھٹو بیٹے مرتضیٰ کو سیاسی جانشین سمجھتی تھیں، جبکہ بے نظیر اپنی حیثیت کو قائم رکھنے کی کوشش میں تھیں۔
1994 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ پر نصرت بھٹو نے گڑھی خدا بخش جانے کا ارادہ کیا، جبکہ بے نظیر نے والد کی قبر کے قریب مشاعرہ منعقد کیا۔ نصرت بھٹو کے جلوس کی سکیورٹی خدشات کی بنا پر کارکنوں کو روکنے کی کوشش کی گئی جس سے جھڑپیں ہوئیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ اس واقعے سے مرتضیٰ بھٹو کے لیے ہمدردی بڑھی اور 1995 میں انہوں نے پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے نام سے علیحدہ پارٹی بنائی۔
مرتضیٰ بھٹو کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ نے کئی افراد کو فکر مند کر دیا۔ 20 ستمبر کو مرتضیٰ نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف سازش کی بات کی اور پولیس افسران کو ذمہ دار قرار دیا۔ اسی شام جب وہ 70 کلفٹن پہنچے تو پولیس نے انہیں روکا اور فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں مرتضیٰ بھٹو شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچنے پر جانبر نہ ہو سکے۔
58 ٹو بی: صدارتی اختیار کا خاتمہ
فاروق لغاری کے بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے فیصلے نے جہاں پاکستان کے سیاسی منظر کو تبدیل کیا، وہاں 58 ٹو بی کی شق کے استعمال پر بھی بحث کو جنم دیا۔ 1997 میں 13ویں ترمیم کے ذریعے یہ شق آئین سے ختم کر دی گئی اور وزیراعظم کے اختیارات کو مزید مستحکم کیا گیا۔
تاہم، 58 ٹو بی کا خاتمہ بھی سیاسی استحکام کا ضامن نہ بن سکا۔ یہ شق پاکستان کی آئینی تاریخ میں اس لیے یادگار رہے گی کہ اس کے تحت چار وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہی گھر بھیج دیا گیا، اور یہ شق ہمیشہ سے ایک متنازع موضوع رہی جس کے حامیوں کے نزدیک اس کا استعمال احتساب کے لیے ضروری تھا جبکہ ناقدین کے نزدیک یہ جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔
58 ٹو بی کے خاتمے کے بعد صدر کے اختیارات محدود ہو گئے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ نے بارہا یہ ثابت کیا کہ سیاسی معاملات میں اصل طاقت کا مرکز پارلیمان یا وزیراعظم ہاؤس نہیں، بلکہ غیر آئینی طاقتیں رہی ہیں، جنہوں نے وقتاً فوقتاً اپنی من پسند حکومتیں بنانے اور گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
بے نظیر حکومت کی برطرفی کے پاکستانی سیاست پر اثرات
بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کی سیاست میں اہم تبدیلیاں آئیں۔ ان کی برطرفی کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کے مسائل نے سر اٹھایا اور جمہوریت کو تقویت دینے کی بحث نے زور پکڑا۔ صدر کے اختیارات کو کم کرنے اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں متحد ہوئیں۔ بے نظیر کی برطرفی کے بعد 1997 میں عام انتخابات ہوئے، جس میں نواز شریف اور ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔
نواز شریف کی حکومت نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 58 ٹو بی کی طاقتور شق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ آئندہ صدور منتخب حکومتوں کو آسانی سے برطرف نہ کر سکیں۔ اس تبدیلی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام کی ایک نئی امید پیدا ہوئی، مگر اس کے باوجود کچھ عرصے بعد مختلف سیاسی تنازعات نے پھر سر اٹھا لیا۔
بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں سیاست میں مختلف دھڑے بازیوں اور سیاسی اختلافات میں اضافہ ہوا۔ بے نظیر کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جبکہ ان کے شوہر کو طویل عرصہ جیل میں رہنا پڑا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں، جو بعد میں میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معاہدے کے ذریعے ختم ہوئیں اور دو سیاسی حریف جمہوری ایجنڈا پر متحد ہوئے۔ یہ معاہدہ 2006 میں دونوں جماعتوں نے جمہوریت کے استحکام اور غیر جمہوری اقدامات کی مخالفت کے لیے کیا۔
بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد کے ان واقعات نے پاکستانی سیاست کو ایک نئے رخ کی طرف موڑ دیا، جہاں جمہوری قوتوں کے درمیان تعلقات میں پختگی اور مفاہمت کی راہیں ہموار ہوئیں۔