سپریم کورٹ کے پہلے سات رکنی آئینی بینچ کی تشکیل، تین سینیئر ترین جج حصہ نہیں ہوں گے
سپریم کورٹ کے پہلے سات رکنی آئینی بینچ کی تشکیل، تین سینیئر ترین جج حصہ نہیں ہوں گے
منگل 5 نومبر 2024 16:01
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
جوڈیشل کمیشن نے پانچ کے مقابلے میں سات ارکان کی اکثریت سے آئینی بینچ تشکیل دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
نو تشکیل شدہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے پہلے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کو کثرت رائے سے سپریم کورٹ کے پہلے سات رکنی آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز نے جسٹس امین الدین خان کی تعیناتی کی مخالفت کی۔
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئینی بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے۔
منگل کو نئے تشکیل دیے گئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرِصدارت سپریم کورٹ آف پاکستان میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے تمام 12 ارکان نے شرکت کی۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے پاس کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں عدالتی تاریخ میں ایک اور مرحلہ طے کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے ملکی تاریخ میں پہلی بار سات رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔
جسٹس امین الدین خان سات رکنی آئینی بینچ کے سربراہ مقرر کیے گئے ہیں۔ کمیشن نے سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچز کی تشکیل کا پہلا مرحلہ طے کر لیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن نے سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیتے ہوئے جسٹس امین الدین خان کو بینچ کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس میں کون کس طرف کھڑا ہوا؟
جوڈیشل کمیشن نے پانچ کے مقابلے میں سات ارکان کی اکثریت سے آئینی بینچ تشکیل دیا۔ آئینی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے تمام صوبوں سے بینچ میں نمائندگی شامل کی گئی ہے۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے دو دو جبکہ خیبر پختونخوا سے ایک جج کو بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، اور شبلی فراز نے آئینی بینچ تشکیل دینے اور جسٹس امین الدین خان کو بینچ کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی۔
جسٹس امین الدین خان، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان، بار کونسل کے نمائندے اختر حسین، شیخ آفتاب احمد، فاروق ایچ نائیک، اور روشن خورشید بھروچہ نے سات رکنی بینچ اور جسٹس امین الدین کے حق میں رائے دی۔ یوں کثرت رائے سے سپریم کورٹ کا پہلا آئینی بینچ تشکیل پایا۔
یوں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز ایک طرف کھڑے نظر آئے اور اپوزیشن ارکان نے بھی اُن ہی کے موقف کی حمایت کی۔
اس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے صرف ایک جج جسٹس امین الدین خان نے اپنے آپ کو ووٹ دیتے ہوئے خود کو آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کرا لیا۔
آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی؟
آئینی بینچ تشکیل پانے کے بعد سپریم کورٹ میں مزید کئی تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملیں گی جو کہ اس فیصلے سے مشروط تھیں۔
پیر کو پارلیمنٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے نتیجے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو ہوگی اور جسٹس امین الدین خان بہ لحاظ عہدہ اس کمیٹی کے تیسرے رکن مقرر ہوں گے۔
اس طرح جسٹس منیب اختر ایک بار پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سے باہر ہو جائیں گے۔
چونکہ جسٹس امین الدین خان سینیارٹی کی بنیاد پر پہلے ہی جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں اور آئینی بینچ کا سربراہ ہونے کے ناتے بھی وہ جوڈیشل کمیشن کا رکن قرار پاتے ہیں لیکن کمیشن کا ایک رکن بیک وقت دو ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکتا۔
اس لیے آئین کے تحت سپریم کورٹ کے اگلے سینیئر ترین جج یعنی جسٹس جمال مندوخیل جوڈیشل کمیشن کے تیرہویں رکن ہوں گے۔
اسی طرح آئینی بینچوں کے سامنے مقدمات فِکس کرنے کے لیے جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل ایک اور کمیٹی بھی تشکیل پائے گی جو آئینی بینچوں کے سامنے مقدمات فِکس کرنے کا فیصلہ کیا کرے گی۔
آئینی بینچ کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی؟
پارلیمنٹ سے منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل کے تحت آئینی بینچ تمام آئینی معاملات، جن میں کسی بھی معاملے پر جہاں آئین کی تشریح مطلوب ہو کو دیکھے گا۔
اس کے علاوہ انسانی حقوق سے متعلق تمام امور اور آئین کے آرٹیکل 3/184 کے تحت آنے والے تمام معاملات سے متعلق درخواستوں، مقدمات، اپیلوں اور نظرثانی کی اپیلوں کو سُنے گا اور اُن پر فیصلہ کرے گا۔
آئینی بینچ درخواست میں کی گئی اپیل سے باہر ازخود کسی معاملے پر کوئی فیصلہ یا رائے نہیں دے سکے گا۔
رجسٹرار سپریم کورٹ آئینی بینچوں کو انتظامی سپورٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ ججوں کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام بینچوں میں نامزدگی تمام صوبوں سے یقینی بنائی جائے گی۔
کسی بھی آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل لارجر آئینی بینچ میں 30 روز میں دائر کی جا سکے گی۔ آئین کے آرٹیکل 3/184 کے تحت موجودہ تمام اپیلیں بھی آئینی بینچز کو منتقل کر دی جائیں گی۔
ترمیم کے تحت سپریم کورٹ میں پہلے دائر ہونے والی درخواست پہلے سُنی جائے گی۔ بعد میں دائر ہونے والی درخواست کو بعد میں سُنا جائے گا۔