Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26 ویں کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم؟ اجمل جامی کا کالم

بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ جس طرح ترمیم ہوئی اس کا مقصد 27 ویں کی جانب پیش قدمی ہے (فوٹو: اے پی پی)
10 اپریل 1973 وہ دن تھا جب بالآخر وطنِ عزیز کو ایک متفقہ آئین نصیب ہوا۔
آئین کے نفاذ کو ابھی ایک ماہ بھی نہ گزرا تھا کہ چار مئی 1973 کو پہلی آئینی ترمیم منظور کروانا پڑی۔ سرحدوں کے از سرِ نو تعین کے لیے اس ترمیم کو آئینی ایکٹ 1974 بھی کہا جاتا ہے۔
پانچ ماہ بعد دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، اس ترمیم کو آرڈینیس 20 کہا گیا۔
26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے51 برسوں کے اس آئینی سفر میں 25 بار ترامیم کرنا پڑیں، سات ترامیم تو بھٹو شہید کے دور میں ہی ہوئیں، جونیجو سرکار کے حصے میں تین جبکہ میاں محمد نواز شریف کے مختلف ادوار حکومت میں مجموعی طور پر آٹھ آئینی ترامیم ہوئیں۔
گیلانی دور میں تین، عباسی عہد میں دو، کپتان کے دورِ حکومت میں بھی دو جبکہ جمالی سائیں کے وقت میں محض ایک ترمیم ہوئی۔ آٹھویں اور 17ویں ترمیم متنازع رہیں، وجہ غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافے کی سکیم تھی۔
تازہ ترمیم سے پہلے 25 ویں ترمیم مئی 2018 میں ہوئی جس کے تحت فاٹا کے علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا۔ مختصر سی ترمیمی تاریخ پیش کرنے کا مقصد فقط یہی تھا کہ معلوم ہوسکے کہ ہر سال دو سال بعد ہمارے نظام کو دستیاب آئینی ڈھانچے سے آگے پیچھے ہونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، بسا اوقات واقعی طور پر از حد ضروری مسائل کے حل کے لیے تو بسا اوقات بندوبست کو مزید بہتر کرنے کے لیے۔
اب جب کہ 26 ویں آئینی ترمیم بھی ہوچکی، نئے چیف جسٹس بھی تعینات ہوچکے تو سوال پیدا ہو رہا ہے کہ 27 ویں کی نوبت کب تلک آئے گی؟
بعض ماہرین اور کچھ حکومتی حلقوں کا تو ماننا ہے کہ جس انداز میں حالیہ ترمیم ہوئی اس کا تیسرا اہم ترین مقصد تھا ہی 27 ویں کی جانب پیش قدمی۔
اوّلین مقصد بظاہر چیف جسٹس کی تعیناتی ہی معلوم ہوتا ہے۔ ثانوی مقصد سیاسی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے جس پر قیاس آرائی گستاخی قرار دی جا سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع ہوگا جب دو سینیئر جج چیف جسٹس کے نیچے کام کریں گے۔ اب تک کی جانکاری کے مطابق جسٹس شاہ اور جسٹس منیب نے کام جاری رکھنے کا ہی سوچ رکھا ہے حالانکہ سرکار کو توقع تھی کہ نمبر تین کی تعیناتی سے باقی دوسینیئرز  اخلاقی طور پر مستعفی ہو جائیں گے اور یوں معاملہ کلیئر ہوجائے گا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں کچھ نہ کچھ سقم باقی ہیں (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

فی الحال صورتحال مختلف دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی قریب میں ایک استعفیٰ ہوا تھا جسے دیکھتے ہوئے اب باقی دو کے ہاں سے سسٹم میں رہتے ہوئے جہدِ مسلسل کا ارادہ دکھائی دے رہا ہے۔
باقی حالات بدلتے اور ریفرنس آتے دیر ہی کتنی لگتی ہے لیکن اب کی بار اگر باقی دو نے قیام کا ارادہ کر لیا ہے تو صورتحال مختلف اور دلچسپ ہوگی کیونکہ پاور پلے میں فیلڈنگ رسٹرکشن کئی بار بولنگ سائیڈ کے لیے بھی سود مند ثابت ہوا کرتی ہے۔
25 تاریخ کی جلدی یا دیگر عوامل اپنی جگہ لیکن اب ماہرین کا ماننا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں کچھ نہ کچھ سقم بہرحال باقی ہیں۔ مثال کے طور پر چیف جسٹس کے انتخاب کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کو دو تہائی کی اکثریت سے کسی ایک نام پر متفق ہونا ہے۔ ایسے میں اگر کبھی دو تہائی کا حصول نہ ہوسکا تو چیف جسٹس کی انتخاب کیسے ہوگا؟
کیا یہاں بھی کوئی قائم مقام چیف جسٹس ہوگا یا سپریم کورٹ بغیر چیف جسٹس کے ہی کام کرے گی؟ چیف جسٹس کی تعیناتی میں تو خیال رکھا گیا کہ ایک ’نہ‘ کرے تو اگلے تک کیسے پہنچنا ہے لیکن کمیٹی کے ہاں گیم پھنس گئی تو حل کیا ہوگا؟ اس بابت ترمیم میں کوئی حل تجویز نہیں کیا گیا۔
آئینی بینچ بھی اب بس بنا ہی چاہتا ہے۔ ناموں پر غور شروع ہو چکا لیکن یہ کیسے طے ہوگا کہ کون سا کیس آئینی بینچ کے ہاں جانا ہے؟
ابھی حالیہ ایک سماعت کا احوال ہی دیکھ لیجیے جہاں جناب منصور علی شاہ کی عدالت تھی۔ برطرف ملازمین کے کیس میں وسیم سجاد وکیل تھے، بحالی کی دلیل تھی، آئین اور قانون کا حوالہ دیا جا رہا تھا کہ جناب شاہ نے فرمایا کہ اچھا اگر یہ آئینی معاملہ ہے تو پھر نئی ترمیم کے بعد اسے اب آئینی بینچ ہی دیکھے گا۔
جائیداد کے مقدمے سے لے کر ٹریفک چالان تک اوردفعہ 144 کے نفاذ سے لے کر اس کی خلاف ورزی تک، ہر مدعے میں آئین تو نکلے گا، آئینی بینچ کیا کیا سنبھالے گا؟ کیسے سنبھالے گا؟
اور تو اور صوبوں میں آئینی بینچ کے لیے صوبائی اسمبلی کی اجازت لینا طے ہے۔ اگر  گنڈا پور سرکار نے ’نہ‘ کر دی تو وہاں آئینی معاملات عدالتیں کیسے دیکھیں گی؟
معلوم ہوتا ہے کہ 17 ویں کی راہ جلد ہموار ہوگی، متوازی آئینی عدالت سے حل نکلے گا اور یوں ایک بار پھر بلاول کے اِن ایکشن دکھائی دینے کی جانکاری ہے اور اس بیچ اب مولانا کے لیے بھی ’نہ‘ مشکل ہو گی۔

آئینی بینچ بھی اب بس بنا ہی چاہتا ہے لیکن یہ کیسے طے ہوگا کہ کون سا کیس آئینی بینچ کے ہاں جانا ہے؟ (فوٹو: اے ایف پی)

موضوع خشک ہو رہا ہے اور مدّعا بیان کرنا مشکل۔
کہا جاتا ہے کہ کسی گاؤں کا کوئی گھبرو آس پاس کے کسی دیہات میں جی لگا بیٹھا۔ دوشیزہ سے معاملات کی خبر ہوئی تو اہلِ علاقہ نے گھبرو کو گھیرنے کا پلان کر لیا۔
موصوف بالآخر نرغے میں آگئے، جوان جہان تھے، شاندار گھوڑا ہم سفر تھا، فوراً لگام تھامی اور بھاگ نکلے، اہل علاقہ بھی پیچھے ہو لیے، منزل زیادہ دور نہیں تھی کہ چند سو میٹر کی دوری سے پہلے ہی موصوف نے گھوڑے سے چھلانگ لگا کر دوڑنا شروع کر دیا۔ لیکن کہاں گھوڑے کی دوڑ اور کہاں انسان کی۔ پکڑے گئے۔ دھر لیے گئے۔
معاملہ پنچائیت تک پہنچا، فیصلہ کیا ہوا یہ الگ کہانی ہے لیکن دورانِ سماعت کسی بزرگ نے گھبرو کو پاس بلا کر پوچھا کہ ’جب تم اپنے علاقے سے محض چند سو میٹر کی دوری پر تھے تو سواری سے چھلانگ لگا کر خود دوڑ نکلنے کی تمہیں بھلا کیا سوجھی؟‘
جوان بولا کہ ’بزرگو! اصل میں جو جلدی مجھے تھے وہ گھوڑے کو نہیں تھی۔‘

شیئر: