انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کو دوست قرار دیتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر بنیں گے تو تجارتی تنازعات ان کے خوشگوار تعلقات کا امتحان لیں گے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں نئی دہلی کو ’ٹیرف کنگ‘ اور ’تجارتی بدسلوکی‘ کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔
ٹرمپ نے ان ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کا وعدہ کیا جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ہے، یہ ایسا اقدام ہے جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت میں صنعتوں کو روک سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی کامیابیNode ID: 881315
-
ڈونلڈ ٹرمپ کا وژن قبول نہیں، لڑائی جاری رکھوں گی: کملا ہیرسNode ID: 881359
دہلی میں قائم اننتا ایسپن سنٹر کے تھنک ٹینک کی چیف ایگزیکٹیو اندرانی باغچی نے کہا کہ ’اقتصادی اور صنعتی سرگرمیوں کو امریکہ میں واپس لانے کے لیے ٹرمپ امریکہ کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی دہائیوں سے امریکہ اس خیال میں رہا ہے کہ چیزیں کہیں اور پیدا ہوتی ہیں اور آپ کو وہ سستی مل جاتی ہیں، اگر مینوفیکچرنگ واقعی واپس امریکہ منتقل ہو جاتی ہے، تو اس کا ان ممالک کے لیے کیا مطلب ہوگا جن کا امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس ہے؟‘
انڈیا 2023-24 مالی سال میں 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی سرپلس کے ساتھ امریکہ کا نواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
مودی کی حکومت نے اپنی ’میک اِن انڈیا‘ مہم کے ذریعے مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی ہے، جس میں نئے کاروباری اداروں کے لیے آسان قوانین اور ٹیکس میں رعایت کی پیشکش کی گئی ہے۔
اس اقدام کی وجہ سے ایپل اور دیگر ٹیک کمپنیاں چین سے باہر انڈیا میں اپنی سپلائی چینز کو متنوع بنانے کی کوشش میں ہیں۔
اور انڈیا کی سب سے بڑی ٹیک کمپنیاں بشمول ٹی سی ایس اور انفوسیز اپنے امریکی ہم منصبوں کو اپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضروریات کو سستی لیبر فورس تک آؤٹ سورس کرنے کا ذریعہ دے کر ترقی کر رہی ہیں۔
بزنس کنسلٹنسی دی ایشیا گروپ کے اشوک ملک نے کہا کہ اگر ٹرمپ ملازمتوں کو واپس لانے اور ’ٹیرف وار‘ شروع کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
