’ابو ایوانکا‘ کی واپسی، مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ وہیں سے شروع کریں گے جہاں چھوڑا تھا
’ابو ایوانکا‘ کی واپسی، مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ وہیں سے شروع کریں گے جہاں چھوڑا تھا
جمعرات 7 نومبر 2024 9:39
ٹرمپ نے سنہ 2017 میں امریکی صدارتی الیکشن لڑا، اورر سنہ 2021 تک صدارتی دفتر میں رہے۔ فوٹو: اے ایف پی
الیکشن نتائج کے حوالے سے تمام تجزیوں اور پیش گوئیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایسی کامیابی حاصل کی ہے جس کو خود انہوں نے ’پاورفُل مینڈیٹ‘ قرار دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں ‘ابو ایوانکا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو اگلی امریکی حکومت بنانے جا رہے ہیں اور جس کے اندرونی سیاست ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری اور مشرق وسطیٰ کے خطے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
بدھ کو جیسے ہی امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا، عرب ملکوں کے دارالحکومتوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ان پیغامات میں ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے دوران خطے سے گہرے سٹریٹجک تعلقات میں مزید وسعت کی بات کی گئی۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے الگ الگ سفارتی مراسلوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد بھیجی۔ شاہ سلمان نے مبارکباد دیتے ہوئے لکھا کہ ’تاریخی طور پر قریبی (دوطرفہ) تعلقات کو تمام شعبوں میں مضبوط اور ترقی دینے کے خواہاں ہیں۔‘
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک پیغام میں ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ امارات ’مواقعوں کی فراہمی، خوشحالی اور استحکام کے لیے امریکہ میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام جاری رکھنے کا منتظر ہے۔‘
امیرِ قطر تمیم بن حمد الثانی نے ایکس پر لکھا کہ وہ ’شراکت داری اور سٹریٹیجک تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے دوبارہ مل کر کام کرنے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔‘
مصر نے بھی امریکی انتخابی نتائج کا خیرمقدم کیا اور صدر عبدالفتاح السیسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ ’ہم علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے اور مصر اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک شراکت داری کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘
تقریباً تمام امریکی میڈیا اداروں کی پیش گوئیوں نے نائب صدر کملا ہیرس کو اوول آفس کی دوڑ میں آگے رکھا ہوا تھا، تاہم نتائج میں اس بات کی واضح نشانیاں ہیں کہ نسلی اقلیتی ووٹرز نے ڈیموکریٹس سے منہ موڑنا شروع کر دیا ہے جن میں عرب امریکی بھی شامل ہیں۔
اکتوبر میں کیے گئے عرب نیوز کے ایک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اور غزہ کی جنگ کے بارے میں بائیڈن کے مؤقف نے عرب امریکی ووٹروں کی بیگانگی میں اہم کردار ادا کیا۔ سروے میں حصہ لینے والے عرب امریکیوں کی اکثریت نے کہا تھا کہ وہ متعدد ’سوئنگ سٹیٹس‘ یا ریاستوں میں ریپبلکن کو ووٹ دیں گے۔
سروے میں شامل تقریباً 45 فیصد نے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے، جبکہ 43 فیصد نے کہا کہ وہ ہیریس کا انتخاب کریں گے، اس حقیقت کے باوجود کہ رائے شماری کرنے والوں میں سے 40 فیصد نے خود کو ڈیموکریٹس، 28 فیصد نے ریپبلکن اور 23 فیصد نے آزاد قرار دیا تھا۔
اگرچہ ٹرمپ کو کملا ہیرس سے زیادہ اسرائیل کا حامی سمجھا جاتا تھا، لیکن بہت سے عرب امریکیوں نے رائے شماری میں عندیہ دیا تھا کہ وہ اب بھی ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ یہ پیشن گوئیاں پوری ہوتی دکھائی دی ہیں، مثال کے طور پر مشی گن کی سوئنگ سٹیٹ میں عرب امریکی ووٹرز نے ٹرمپ کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا جس سے نتیجہ ڈیموکریٹس کے خلاف آیا۔
ٹرمپ نے ریاست مشی گن کے شہر ڈیئربورن میں 42.5 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ کملا ہیرس کو 36 فیصد ووٹ ملے۔ گرین پارٹی کی امیدوار جل سٹین نے 18 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
سابق انٹیلیجنس افسر اور پینٹاگون کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار اوبئی شاہبندر نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’عرب امریکی اور مسلم ووٹرز میں اس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کے امن کے پیغام کا جواب دیا۔‘
تجزیہ کار کے مطابق ’انہوں نے صدر ٹرمپ کی ان کمیونٹیز تک رسائی کا جواب دیا، جس کی سربراہی ان کے خارجہ پالیسی کے ایلچی رچرڈ گرینل نے کی۔ یہ امن کا پیغام تھا۔ یہ شمولیت کا پیغام تھا۔ وہ مسلمان امریکی کمیونٹی کے رہنماؤں کو سامنے لائے، اور اس حکمت عملی کا نتیجہ اُن کے حق میں نکلا۔‘
اوبئی شاہبندر نے کہا کہ ’عرب امریکی اور مسلمان امریکی یا مشرق وسطیٰ کی کمیونٹی نے گزشتہ چار برس کی ناکام بائیڈن-ہیرس پالیسیوں کو مسترد کیا ہے، خاص طور پر جب بات خارجہ پالیسی کی ہو۔ ان کمیونٹیز نے ایک ایسی خارجہ پالیسی کو دیکھا جس نے پورے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں اور عربوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام کی پشت پناہی کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حقیقی تبدیلی کی ایک خواہش تھی اور آگے بڑھنے کا ایک نیا راستہ تھا۔ اور نتائج یہ بتاتے ہیں۔ امریکی مسلمان اور امریکی عرب ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ وائٹ ہاؤس میں دیکھنا چاہتے تھے۔‘
سنہ 1946 میں نیو یارک میں پیدا ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے جب 2017 میں صدارتی الیکشن لڑا تو اس وقت بھی وہ ایک جانے مانے بزنس مین اور میڈیا میں معروف شخصیت تھے۔ ان کا سیاسی کیریئر سنہ 2015 میں شروع ہوا جب وہ ریپبلکنز کی طرف سے صدارتی امیدوار بننے کی مہم میں شریک ہوئے اور اس دوران انہوں نے امیگریشن اصلاحات، تجارتی تعلقات اور ایران کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ڈیموکریٹ امیدوار ہلری کلنٹن کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے کی مہم چلائی تو اُن کا نعرہ ’سب سے پہلے امریکہ‘ تھا جس میں وہ ٹیکسوں میں کمی اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی بات کرتے رہے۔ تاہم اُن کے صدارتی دور میں امریکہ میں پولرائزیشن بڑھی اور عالمی وبا کورونا کے دوران لیے گئے اقدامات بھی تنقید کی زد میں آئے۔
صدر ٹرمپ کو دو بار مواخذے کی کارروائی کا بھی سامنا رہا۔ پناہ گزینوں، ابارشن کے حق اور جمہوریت کے حوالے سے اُن کے خیالات بھی متنازع رہے۔
اب جب 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں بطور صدر داخل ہوں گے تو ان کے سامنے کئی مسائل موجود ہوں گے جن میں اندرونی طور پر مہنگائی، سرحدوں پر پناہ گزینوں کی روک تھام جبکہ خارجہ محاذ پر یوکرین، غزہ اور لبنان میں جاری جنگیں ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں مشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو فراس مقصد نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ٹرمپ کی کامیابی توقعات سے بڑھ کر ہے اور یہ تاریخی ہو سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صدارتی دفتر اور سینیٹ میں کامیابی کے بعد ’اگر ریپبلکنز ایوانِ نمائندگان میں بھی اکثریت حاصل کرتے ہیں تو عالمی جنگ کے بعد یہ پہلی بار ہوگا۔ اور یہ ایک ایسا عہد ہوگا جہاں امریکہ مکمل طور پر دائیں بازو کی طرف جائے گا۔‘
اگر ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت بھی پہلی والی کی طرح رہی تو خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں کی توقع ہے۔ اس میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے ساتھ جارحانہ سودے بازی کے انداز اور ’نہ ختم ہونے والی جنگوں‘ سے نکلنا شامل ہو گا۔