پروازوں کی منسوخی یا تاخیر: پی آئی اے کے خلاف ہی زیادہ احتجاج کیوں ہوتے ہیں؟
پروازوں کی منسوخی یا تاخیر: پی آئی اے کے خلاف ہی زیادہ احتجاج کیوں ہوتے ہیں؟
پیر 11 نومبر 2024 18:57
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پی آئی اے کے فلائیٹ شیڈول کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران 40 سے زائد ملکی و غیر ملکی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی انتظار گاہ میں کچھ افراد جمع تھے کہ ایک جانب اچانک شور شرابا ہونے لگا تو ایئر پورٹ پر موجود مسافروں سمیت ڈیوٹی پر مامور افراد اس طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ایک بیگ، کچھ چاکلیٹس سے بھرے شاپنگ بیگز اور دیگر سامان لیے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے عملے پر برہمی کا اظہار کر رہا تھا۔
اس شخص (غلام رسول) کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹوں کے انتظار کے باوجود وہ سرِدست اپنی منزل لاہور نہیں پہنچ سکا۔ کراچی سے لاہور کا فضائی سفر دو گھنٹے کا ہے، لیکن پی آئی اے انتظامیہ کی مبینہ غفلت، لاپرواہی اور نااہلی کی وجہ سے اُس کو انتظار کرتے ہوئے پانچ گھنٹے ہو چکے ہیں۔
اس مسافر کے احتجاج پر دیگر مسافروں نے بھی ایئر لائن کے عملے سے سوال کیا کہ وہ کب تک اپنی منزل لاہور پہنچ جائیں گے؟
پی آئی اے کے عملے کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر مسافروں نے ایئر پورٹ لاؤنج میں احتجاج کیا۔
مسافروں نے احتجاج کرتے ہوئے ایئر پورٹ پر قائم پی آئی اے کے دیگر فلائٹس کے کاونٹرز سے جاری ہونے والے بورڈنگ پاس کے عمل کو بھی روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ایئرپورٹ سکیورٹی کے عملے نے بروقت لاؤنج میں پہنچ کر صورتِ حال پر قابو پا لیا۔
یہ واقعہ کراچی کے جناح انٹرنشنل ایئرپورٹ پر اتوار اور پیر کی درمیانی شب پیش آیا جب کراچی سے لاہور جانے والی ایک پرواز پنجاب میں سموگ کی وجہ سے کچھ گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی۔
اس پرواز میں سفر کرنے والے مسافروں نے کراچی کے ہوائی اڈے پر قومی ایئر لائن کے خلاف شدید احتجاج کیا اور پرواز میں تاخیر پر پی آئی اے کی سروس پر شدید تنقید کی۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن کے خلاف پروازوں میں تاخیر یا انتظامی امور میں بدنظمی کے خلاف یہ پہلا احتجاج نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان کے مختلف شہروں کے ایئرپورٹس پر قومی ایئر لائن کے خلاف آئے دن احتجاج ہوتا رہتا ہے۔
دیگر ایئر لائنز کے مقابلے میں پی آئی اے کے خلاف احتجاج کے واقعات کیوں زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں؟
ہوا بازی کے شعبے کے ماہر اور سینئر رپورٹر طارق ابوالحسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ مسافروں کی نفسیات کا معاملہ ہے جو ہوائی اڈوں پر سیدھی قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں مگر پاکستان کی فضائی حدود سے باہر نکلتے ہی اصول اور ضابطوں پر عمل کرنے لگتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سارا مسئلہ قانون کی بالا دستی کا ہے۔ پاکستان میں وی آئی پی کلچر کا رجحان ہے اور قومی ایئر لائن چوں کہ حکومت کے زیرانتظام ہے تو اس لیے اس پر رعب جمانا آسان ہے۔علاوہ ازیں، ایئر پورٹس پر ہنگامہ کرنے والے متعدد مسافر ایسے ہوتے ہیں جو ماضی میں سرکاری عملے پر اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پرائیویٹ ایئر لائنز کے مقابلے میں قومی ایئر لائن کے خلاف احتجاج کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔ سرکاری ایئر لائن کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے اور جہازوں کی کمی اور انتظامی امور میں خامیاں موجود ہیں لیکن کئی بار جائز وجوہات کے باوجود مسافر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔‘
قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے فلائیٹ شیڈول کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران 40 سے زائد ملکی و غیر ملکی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئی ہیں جب کہ متعدد پروازیں منسوخ بھی ہوئی ہیں جن میں سے بیشتر پروازیں یا تو جہازوں کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی ہیں یا پھر موسم کی خرابی کی وجہ سے اپنے مقررہ وقت پر روانہ نہیں ہوسکیں۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی قومی ایئر لائن میں سفر کرنے والے مسافر پی آئی اے کو اپنے گھر کی ایئرلائن سمجھتے ہیں۔ یہ ایک قومی ادارہ ہے، اور ہر پاکستانی کو اپنی ایئر لائن کو اون بھی کرنا چاہیے لیکن ایئر لائن ہونے کے ناتے پی آئی اے کو قانون کو فالو کرنا ہوتا ہے۔‘
’پاکستان کے کچھ شہر اگر سموگ کی وجہ سے متاثر ہیں تو یہ لازمی سی بات ہے کہ پی آئی اے ان مقامات پر فلائٹ آپریٹ نہیں کرے گی۔ پی آئی اے اپنے مسافروں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کیسے ان مقامات کے لیے پروازیں چلا سکتی ہے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی تکنیکی خرابی یا دیگر وجوہات کی بنا پر پروازیں تاخیر کا شکار ہوتی ہیں، ان معاملات میں پی آئی اے اپنے مسافروں سے تاخیر پر معذرت بھی کرتی ہے اور انہیں مکمل سہولیات بھی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جہاں تک بات رہی احتجاج کی تو پی آئی اے کی کوشش ہوتی ہے کہ مسافروں کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جائیں مگر اس کے باوجود کوئی کمی رہ جائے تو مسافر احتجاج کرنے لگتے ہیں۔‘