Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر صوبائی حکومتیں مل کر پی آئی اے لینا چاہتی ہیں تو اعتراض نہیں: وزیر نجکاری

وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی نجکاری کا عمل ناکام ہونے پر کہا ہے کہ پی آئی اے کو چلانا یا ٹھیک کرنا میری ذمہ داری نہیں۔ میری ذمہ داری صرف پی آئی اے بیچنا ہے، وہ جس حالت میں ہے اسی حالت میں بیچنا میری ذمہ داری ہے۔
اتوار کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کو ٹھیک کے لیے میرا کوئی کردار نہیں، مجھے بہت محکمے دیے گئے کہ یہ حکومتوں سے نہیں چل سکے ان کی نجکاری کرنی ہے۔ کیونکہ ان کا خسارہ ہمارے غریب عوام نہیں اٹھا سکتے اس لیے بیچنا ہے۔
’کیا پی آئی اے کا خسارہ میرا قائم کردہ ہے؟ پی آئی اے کے ساتھ جو ہوا ہے اس میں میرا بھی کوئی کردار ہے؟ اپنا اپنا حصہ تلاش کریں کہ پی آئی اے کا بیڑہ غرق کرنے میں کس کس کا کردار ہے؟ اگر ذمہ داری میرے اوپر آئی تو میرا احتساب پھر کریں۔‘

نجکاری کا عمل ناکام کیوں ہوا؟

پاکستان کی قومی ایئرلائن کی نجکاری کی کوشش دو روز قبل اس وقت ناکام ہوئی جب اکلوتی بڈر نجی کمپنی نے اس کی بولی 10 ارب روپے لگائی، جبکہ حکومت کی جانب سے کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی گئی تھی۔
اسلام آباد میں سارا دن ہونے والی تقریب اس وقت بے نتیجہ ختم ہوئی جب بولی دہندہ پارٹی بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے 10 ارب روپے سے آگے بڑھنے سے بار بار وقت دیے جانے کے باوجود انکار کر دیا۔ اس پر نجکاری بورڈ نے بلیو ورلڈ سٹی کی بولی مسترد کر دی اور یوں پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ناکام ہو گیا۔
عبدالعلیم خان نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے کہا کہ بیچنا اور خریدنا دو الگ باتیں ہیں۔ بیچنے میں اگر میری کوئی کوتاہی ہے تو میں ضرور اپنے ذمہ اٹھاوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں بیچنے والا ہوں خریدار نہیں ہوں، مجھے نجکاری کا جو قانون دیا گیا ہے کیا میں اس سے انحراف کر سکتا ہوں؟ کیا میں اس میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہوں؟ یہ ایک پراسس ہے جس سے ہٹ کر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پی آئی اے قومی اثاثہ ہے اسے اونے پونے دام میں نہیں بیچ سکتے۔‘

صوبائی حکومتوں کی دلچسپی

وفاقی وزیر نجکاری نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں کی جانب سے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کے حوالے سے کہا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ ہم پی آئی اے خریدنا چاہتے ہیں، نواز شریف کی بھی ویڈیو دیکھی۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اگر خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں مل کر پی آئی اے لینا چاہتی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہے؟‘

پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش اس وقت ناکام ہوئی جب اکلوتی بڈر نجی کمپنی نے اس کی بولی 10 ارب روپے لگائی۔ (فوٹو: روئٹرز)

مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے گذشتہ روز سنیچر کو نیویارک میں پارٹی کارکنوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خریدنے یا ’ایئر پنجاب‘ کے نام سے اپنی ایک نئی ایئرلائن شروع کرنے پر غور و خوض کر رہی ہے۔
سنیچر کو ہی خیبر پختونخوا حکومت نے پی آئی اے نجکاری کے عمل میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر نجکاری کو خط لکھا۔
خط میں لکھا گیا کہ خیبر پختونخوا حکومت چاہتی ہے کہ پی آئی اے وفاقی حکومت کے پاس رہے، خیبر پختونخوا حکومت اس قومی اثاثے کو 10 ارب روپے کی موجودہ بولی سے زیادہ قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہے۔

پی آئی اے  پر قرضوں کا کل حجم کتنا ہے؟

خیال رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں تیار ہونے والی پی آئی اے کی فنانشنل رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے کل اثاثہ جات کی مالیت 56 کروڑ ڈالر ہے، جبکہ پی آئی اے پر قرضوں کا کل حجم تقریباً پونے تین ارب ڈالر (تقریباً آٹھ سو ارب روپے) ہے۔ اس میں پینشن فنڈز، پراویڈنڈ فنڈ اور ادھار فیول کی خطیر رقم شامل ہے۔

عبدالعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کو چلانا یا ٹھیک کرنا میری ذمہ داری نہیں۔ (فائل فوٹو: عبدالعلیم خان فیس بک)

حالانکہ حکومت نے پی آئی اے کو فروخت کے لیے پیش کرنے پر ان قرضوں کو تقریباً اپنے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ان کو تقریباً دوسو ارب روپے تک یعنی ایک چوتھائی کر دیا۔ یعنی جو کوئی بھی پی آئی اے خریدے گا اس کے حصے میں دو سو ارب روپے ادا کرنے کی ذمہ داری بھی ہو گی۔
یوں وفاقی کابینہ سے منظور شدہ رقم 85 ارب روپے اور دو سو ارب روپے کے قرضے ملا کر پی آئی اے کے 60 فیصد حصص آپ کے نام ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ قومی ایئرلائن کے 7200 مستقل ملازمین بھی ’جہیز‘ میں آئیں گے۔

شیئر: