پی آئی اے کی خریداری میں صوبوں کی دلچسپی، کیا اس پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے؟
پی آئی اے کی خریداری میں صوبوں کی دلچسپی، کیا اس پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے؟
پیر 4 نومبر 2024 11:24
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’ایک بات تو طے ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہوئی تو مزید خسارہ ہوگا۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ناکام ہونے کے بعد صوبوں کی جانب سے پی آئی اے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے اور ان کی اس پیش کش کو لے کر حکومتی اور کاروباری حلقے اپنا ردعمل بھی دے رہے ہیں۔
31 اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کا پروسیس شروع کیا گیا اور حکومت کی جانب سے 85 ارب روپے سے زائد کی کم از کم قیمت کے تعین کے باوجود واحد بولی دہندہ بلیو ورلڈ کنسورشیم نے 10 ارب روپے بولی دی۔ نجکاری کمیشن کی جانب سے ان کو بولی بڑھانے کے لیے وقت بھی دیا گیا لیکن انھوں نے بولی بڑھانے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد اسے ختم کر دیا گیا اور بظاہر یہ عمل ناکام ہو گیا۔
پی آئی اے میں صوبوں کی دلچسپی
پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ناکامی کے بعد ختم ہوا تو سب سے پہلے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پی آئی اے کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ کے پی انویسٹمنٹ بورڈ نے وفاقی وزیر نجکاری کو خط لکھ کر پی آئی اے کی نجکاری بولی میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ پی آئی اے قومی ایئرلاٸن ہے اور اس کے اثاثے قوم کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کی اہمیت کے پیش نظر وزیراعلیٰ کے پی کی ہدایت پر خط لکھا جا رہا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ ’خیبر پحتونخوا حکومت بلیو ورلڈ کنسورشیم کی 10 ارب کی بولی سے زیادہ بولی کے لیے تیار ہے۔ ہمیں جلد موقع دیا جائے تاکہ اپنی تجاویز کے ساتھ آپ کی ٹیم سے مل سکیں۔‘
دوسری جانب امریکہ میں گفتگو کے دوران نواز شریف نے بھی کہا کہ پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ وہ پی آئی اے کو خرید لے یا پنجاب ایئر لائن کے نام سے نئی ایئر لائن بنا لے۔ تاہم پنجاب حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔
یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی اس میں انٹری ماری اور پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ’پی آئی اے سے ہمارے ملک اور نسلوں کی تاریخ جڑی ہے، اسی وابستگی کی وجہ سے کراچی کے تاجروں کو پی آئی اے میں دلچسپی ہے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ ’کراچی کے تاجر مسلسل مجھ سے رابطہ کرکے ایئر لائن کے معاملے پر بات کر رہے ہیں، کراچی کے تاجر چاہتے ہیں ایک سال کے لیے پی آئی اے انہیں دی جائے۔ کراچی کے تاجر نئی ایئر لائن شروع کرنے میں بھی سنجیدہ ہیں، میں نے تاجروں سے کہا ہے کہ وہ نئی ایئر لائن کانام ’پی کے‘ رکھیں جس میں پی کا مطلب پاکستان اور کے کا مطلب کراچی ہوگا۔‘
وفاق کا ردعمل
ان پیش کشوں کے حوالے سے وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’صوبائی حکومتیں پی آئی اے میں اپنا اپنا شیئر خرید لیں اور مل کر پروفیشنل اندازمیں چلائیں۔ کے پی، پنجاب اور سندھ حکومت مل کر پی آئی اے لینا چاہیں تو کوئی اعتراض نہیں، آج بھی کہتا ہوں پی آئی اے بہت بڑا اثاثہ ہے، ہمیں پی آئی اے کو چلانا ہے، کسی صوبے کی نہیں، پاکستان کی ایئرلائن ہے۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی نجکاری کا فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کئی برس کی منصوبہ بندی، نجکاری قوانین اور عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط شامل ہیں۔ نجکاری کی کوشش تو کئی حکومتوں نے کی لیکن کوئی بھی اس عمل کو شروع تک نہیں کر سکا اور بالآخر نگراں حکومت کے دور میں یہ سلسلہ آگے بڑھا اور موجودہ حکومت اسے اپنے طور پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوشاں دکھائی دی، تاہم اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کی بہت سی وجوہات سامنے آ رہی ہیں۔
تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ کئی برس یا کم از کم گذشتہ ایک سال میں نجکاری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے دوران کسی ایک بھی صوبے کی جانب سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی۔ آئینی تقاضے کے طور پر یہ عمل مشترکہ مفادات کونسل میں بھی زیر بحث رہا جہاں چاروں صوبوں کی سیاسی اور انتظامی نمائندگی موجود ہوتی ہے، اور وہاں پر بھی کسی نے بظاہر کوئی بڑا اعترض نہیں اٹھایا۔
نجکاری کے عمل کی ناکامی کے فوری بعد صوبوں کی جانب سے اچانک دلچسپی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا صوبے اس معاملے کو بھی سیاست کی نذر تو نہیں کر رہے؟ جبکہ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا صوبے ایئر لائن چلانے کی پوزیشن میں ہیں جسے کئی جماعتیں اور فوجی حکومتیں بھی اپنے پاوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہی ہیں؟
اس حوالے سے نجکاری کمیشن کے سابق چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ بالکل نا سمجھی کی بات ہے کہ حکومت کا ایک حصہ پی آئی اے کی نجکاری کر رہا ہے اور حکومت کا دوسرا حصہ اسے خریدنے کی پیش کش کر رہا ہے۔ ان کو تو سمجھ ہی نہیں کہ نجکاری کیا ہوتی ہے اور پی آئی اے کی نجکاری کیوں کی جا رہی ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے اور اس کے پیچھے محرکات کیا ہیں؟ اس پیش کش کے پیچھے یقیناً سیاسی مقاصد ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر صوبے سنجیدہ ہیں اور ان کے پاس سرپلس پیسے ہیں تو انھیں تعلیم، صحت اور امن و امان پر لگانے چاہییں جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ پی آئی اے تو فروخت ہی اس وجہ سے کی جا رہی ہے کہ حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں اور نہ ہی ایئر لائن چلاتی ہیں۔ میں تو اسے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ پیش کش سمجھتا ہوں۔‘
اس حوالے سے سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’ایک بات تو طے ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہوئی تو مزید خسارہ ہوگا۔ نگراں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بہت محنت کی تھی۔ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہوئی تو ایک سال میں مزید 100 ارب روپے کا خسارہ ہوگا۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک صوبہ وفاق سے پی آئی اے خرید لے، کیونکہ کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں۔ صوبوں کا کام تعلیم، صحت، لا اینڈ آرڈر اور عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے، صوبے ایک پیسے کا ٹیکس جمع نہیں کرتے اور وفاق سے پیسے لیتے ہیں۔ دنیا میں کوئی حکومت ایئرلائن نہیں چلاتی۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی صوبہ وفاق سے ایئرلائن خریدے۔‘