Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا اور پاکستان محاذ: چیمپئنز ٹرافی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ سکتا ہے؟

پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے کہا تھا کہ چیمپئن ٹرافی کے معاملے پر جو پاکستان حکومت فیصلہ کرے گی اس پر عمل ہوگا (فوٹو: پی سی بی)
ایک طرف پاکستان کے وزیر داخلہ اور پی سی بی چیئرمین محسن نقوی، دوسری طرف انڈین وزیر داخلہ امت شاہ اور ان کے بیٹے جے شاہ جو انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے چیئرمین ہیں۔
رواں سال دسمبر میں جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کا عہدہ بھی سنبھالنے والے ہیں۔ مطلب ’جے شاہ کالنگ جے شاہ؟‘ 
اب بات یہ ہے کہ آئی سی سی نے چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی تو پاکستان کو سونپ دی اور خود اس وقت مشکل صورتحال میں پھنس چکا ہے۔
کئی ماہ سے انڈین میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہا کہ انڈین ٹیم پاکستان نہیں آئے گی، اور ہوا وہی کہ انڈین ٹیم نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے کچھ روز قبل اپنی پریس کانفرس میں کہا کہ ہمیں ان رائٹنگ میں کوئی پیغام نہیں ملا، جس کے بعد وہ بھی آئی سی سی کی جانب سے موصول ہوگیا جس میں آئی سی سی نے پی سی بی کو انڈیا کے موقف سے آگاہ کیا۔
اب پاکستان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہم ہائبرڈ ماڈل کی طرف نہیں جائیں گے۔ اور یہاں تک کہ جب تک انڈیا سے معاملات ٹھیک نہیں ہوتے پاکستان کسی بھی ٹورنامنٹ میں نہیں کھیلے گا۔ 
لوکل اور انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی سی سی پوری چیمپئنز ٹرافی ہی پاکستان سے باہر لے جائے اور پاکستان مکمل طور پر ہی ٹورنامنٹ کھیلنے سے انکار کر دے۔
انڈین میڈیا ’سپورٹس تک‘ کے مطابق پاکستان اگر آئی سی سی کی بات نہیں مانتا تو پورا ٹورنامنٹ ہی جنوبی افریقہ منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔ 
جہاں انڈیا کے نہ آنے سے پاکستان کو نقصان ہوگا وہیں آئی سی سی کو بھی ہوگا، اور اگر پاکستان بھی ٹورنامنٹ سے نکل گیا پھر نقصان بھی زیادہ ہو جائے گا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگست 2024 میں رپورٹ سامنے آئی تھی کہ آئی سی سی نے چیمپئنز ٹرافی کے لیے 65 ملین ڈالر کا بجٹ منظور کیا جس کا بڑا حصہ ممکنہ ہائبرڈ ماڈل میں استعمال ہونے کے لیے بھی رکھا گیا تھا۔
کرک بز کے مطابق پاکستان نے آئی سی سی ہوسٹنگ رائٹس پر معاہدہ کیا تھا جس میں یہ شق شامل تھی کہ سکیورٹی خدشات کے تحت میچز کسی اور مقام پر منتقل کیے جا سکتے ہیں۔ 
اس حوالے سے اردو نیوز نے آسٹریلیا میں مقیم سپورٹس صحافی بلال عقیل سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ ’یہ خبر اگست میں نشر ہوئی اور اس وقت اس بات کی کوئی تائید یا تردید پیش نہیں کی گئی  تھی۔‘
بلال عقیل نے بتایا کہ ’اگست میں بجٹ کا معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ دو بجٹ زیر غور رکھے گئے تھے، ایک پاکستان میں میچز کے لیے اور دوسرا اس صورت کے لیے کہ اگر میچز کسی وجہ کے تحت پاکستان سے باہر منتقل کرنے پڑیں۔‘
یاد رہے پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے کہا تھا کہ پاکستان نے اب تک انڈیا کے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا مگر اب مزید ایسا نہیں ہوگا۔ واضح رہے ابھی پچھلے ورلڈ کپ میں ہی پاکستان انڈیا میں موجود تھا۔ 
محسن نقوی نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر انڈیا پاکستان نہیں آتا تو جو پاکستان حکومت کہے گی پی سی بی وہی کرے گا۔ 
ماضی پر نظر دوڑائیں تو 1996 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا نے سری لنکا جانے سے انکار کیا تھا جس پر آئی سی سی نے میچ کے پوائٹس سری لنکا کو دے دیے تھے۔
2003 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ نے زمبابوے جانے سے انکار کیا اور آئی سی سی نے انگلینڈ کی نہ سنی اور میچ زمبابوے کو ایوارڈ کر دیا۔
2003 کے ورلڈ کپ میں ہی نیوزی لینڈ نے کینیا جانے سے انکار کیا اور کہا کہ میچ جنوبی افریقہ منتقل کریں۔ آئی سی سی نے ایسا نہیں کیا اور کینیا کو میچ کے پوائنٹس دے دیے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس تمام صورتحال میں آئی سی سی سنگین اقدامات یہی کر سکتا ہے کہ آیا ٹورنامنٹ کسی اور ملک منتقل ہو جائے یا مکمل طور پر منسوخ کر دیا جائے۔
اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، دسمبر میں جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں اور ان تمام فیصلوں میں وہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
سپورٹس صحافی فیضان لاکھانی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی سی سی کو پیغام بھی بھیجا ہے جس میں انڈیا کے انکار کرنے کی وجوہات مانگی گئی ہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں 100 سے بھی کم دن باقی ہیں، دنیا بھر کے کرکٹ شائقین اس وقت پر تجسس ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے چند دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

شیئر: